Web Design and Web Development

WEBSA is a web design company and web design firm that offers creative, professional and skilled web page design. Custom website designers and developers at our company focus on delivering our clients with customized and user-friendly designs. We are ready to promote your business.

http://www.websadubai.com/index.php

گھر میں کتے پالنا جدید سائنسی معلومات کی روشنی میں

نبی رحمت  صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا ضرورت گھر میں کتے پالنے کی ممانعت فرمائی ہے۔مگر کس قدردکھ کی بات ہے کہ یورپ کی تقلید میں ہمارے ہاں بھی امیر گھرانوں میں کتوں سے کھیلنا اور شوقیہ طور پر گھروں پر پالنا ایک فیشن اور سٹیٹس سمبل بنتا جارہاہے ۔پچھلے دنوں پاکستانی چینلز پر ایک موبائل کمپنی کی جانب سے ایک ایڈ دی جارہی تھی، جس میں ایک معصوم بچی ایم ایس ایم کے ذریعے اپنے والد سے کتے کے ایک بچے کو گھر میں لانے کی فرمائش کرتی ہے۔اسلام میں کتے رکھنابالکل ہی منع نہیں کیاگیا ہے بلکہ اس کی محدود اجازت بھی دی گئی ہے چناچہ جو کتے کسی ضرورت سے پالے جائیں مثلاً شکاری کتے یا کھیت اور مویشیوں وغیرہ کی حفاظت کرنے والے کتے تو وہ اس حکم سے مستثنیٰ ہیں ۔
مشاہدے کی بات ہے کہ لوگ کتوں پر تو خوب خرچ کرتے ہیں لیکن انسان کی اولادپر خرچ کرنے میں بخل سے کام لیتے ہیں اورمغرب میں توایسے بھی لوگ ہیں جو مرتے وقت اپنی جائیداد کتوں کے نام وقف کردیتے ہیں جبکہ وہ اپنے اقرباسے بے رخی برتتے ہیں اور اپنے پڑوسی اوربھائی کو بھول جاتے ہیں ۔مسلمان کے گھر میں اگر کتا ہوتو اس بات کا احتمال رہتاہے کہ وہ برتنوں وغیرہ کوچاٹ کر نجس بنا کر رکھ دے۔
نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جب کتا کسی کے برتن میں منہ ڈالے تو اسے چاہیے کہ برتن کو سات مرتبہ دھوئے ۔ان میں سے ایک مرتبہ مٹی لگا کر دھولے۔” (صحیح بخاری)
ایک اور حدیث میں نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” میرے پاس جبریل  تشریف لائے اور کہا : گزشتہ شب میں آیا تھا لیکن گھر میں داخل نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ دروازہ پر مجسمہ تھا اور گھر میں تصویروں والا پردہ تھا اور گھر میں کتا بھی تھا۔لہذا جو مجسمہ گھر میں ہے اس کا سر آپ اس طرح کٹوادیجئے کہ وہ درخت کی شکل میں رہ جائے اور پردہ پھاڑ کر تکیے بنالیجئے جن کو پامال کیا جائے اور کتے کو گھر سے باہر نکلوادیجئے۔(سنن ابی داؤد)
صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی ایک اور حدیث میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی درج ذیل الفاظ میں مذکور ہے۔
” جو شخص کتا پالتا ہے اس کا اجر روزانہ ایک قیراط کم ہوجاتاہے الا یہ کہ شکار یا کھیتی یا مویشیوں کے لیے پالا جائے ۔” ان احادیث کی رو سے گھر میں کتا پالنے کی ممانعت واضح الفا ظ میں موجود ہے مگر اس ممانعت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم کتوں کے ساتھ سنگدلانہ برتاؤ کریں اور ان کو ختم کردیاجائے۔کیونکہ سنن ابی داؤدکی ایک حدیث میں نبی مہرباں  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشا د گرامی موجود ہے کہ
” اگر کتے بھی ایک امت نہ ہوتے تو میں انہیں قتل کرنے کا حکم دیتا ”۔
چناچہ کتوں کے متعلق اسلامی احکامات بیان کرنے کے بعد یہ مناسب معلوم ہوتاہے کہ کتوں کے گھر میں پالنے کے بارے میں جدید سائنسی معلومات سے بھی عوام الناس کو آگاہ کردیاجائے جس سے جہاں ایک عام مسلمان کااپنے دین پر ایمان مضبو ط ہوگا وہیں ایک غیر مسلم کے دل میں بھی دین اسلام کے بر حق ہونے کے بارے میں ایک مثبت فکر پیدا ہوگی۔انشاء اللہ
علامہ یوسف القرضاوی نے ان سائنسی معلومات کو اپنی کتا ب ”اسلام میں حلال وحرام ”میں ایک جرمن اسکالر سے قلمبند کیا ہے ، اس کا یہ مضمون ایک جرمن رسالے میں شائع ہوا تھا۔اس مضمون میں ان اہم خطرات کو بیان کیا گیا ہے جو کتے کو پالنے یا ا س کے قریب رہنے کی صورت میں لاحق ہوتے ہیں۔چناچہ وہ لکھتا ہے :
گزشتہ چند برسوںمیں لوگوں کے اندر کتا پالنے کا شوق کافی بڑھ گیا ہے،جس کے پیش نظر ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ لوگوں کی توجہ ان خطرات کی طرف مبذول کرائی جائے جو اس سے پیدا ہوتے ہیں خصوصاً جبکہ لوگ کتا پالنے ہی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اس کے ساتھ خوش طبعی بھی کرنے لگتے ہیں اور اس کو چومتے بھی ہیں،نیز اس کو اس طرح چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ چھوٹوں اوربڑوں کے ہاتھ چاٹ لے۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بچا ہوا کھانا کتوں کے آگے اپنے کھانے کی پلیٹوں میں رکھ دیاجاتاہے ۔علاوہ ازیں یہ عادتیں ایسی معیوب ہیں کہ ذوق سلیم ان کو قبول نہیں کرتا اور یہ شائستگی کے خلاف ہیں ۔مزید برآں یہ صحت ونظافت کے اصول کے بھی منافی ہے۔
طبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو کتے کو پالنے اوراس کے ساتھ خوش طبعی کرنے سے جو خطرات انسان کی صحت اور اس کی زندگی کو لاحق ہوتے ہیں ان کو معمولی خیال کرنا صحیح نہیں ہے ۔بہت سے لوگوں کو اپنی نادانی کی بھاری قیمت اد اکرنی پڑی ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ کتوں کے جسم پر ایسے جراثیم ہوتے ہیں جو دائمی اور لاعلاج امراض کا سبب بنتے ہیں بلکہ کتنے ہی لوگ اس مرض میں مبتلا ہوکر اپنی جان سے ہاتھ دو چکے ہیں۔اس جرثومہ کی شکل فیتہ کی ہوتی ہے اوریہ انسان کے جسم پر پھنسی کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں۔گو اس قسم کے جراثیم مویشیوں اور خاص طورسے سؤروں کے جسم پر بھی پائے جاتے ہیں لیکن نشوونما کی پوری صلاحیت رکھنے والے جراثیم صرف کتوں پر ہوتے ہیں۔
یہ جراثیم گیدڑ اور بھیڑئیے کے جسم پر بھی ہوتے ہیں لیکن بلیوں کے جسم پر شاذ ہی ہوتے ہیں ۔یہ جراثیم دوسرے فیتہ والے جراثیم سے مختلف ہوتے ہیں اور اتنے باریک ہوتے ہیں کہ دکھائی دینا مشکل ہے ،ان کے بارے میں گزشتہ چند سالوں ہی میں کچھ معلومات ہوسکی ہیں۔”
مقالہ نگا ر آگے لکھتاہے :
” یہ جراثیم انسان کے جسم میں داخل ہوتے ہیں اور وہاںمختلف شکلوںمیں ظاہر ہوتے ہیں ۔یہ اکثر پھیپھڑے ، عضلات ،تلی ،گردہ اور سر کے اندرونی حصہ میں داخل ہوتے ہیں ۔ان کی شکل بہت کچھ بدل جاتی ہے،یہاں تک کہ خصوصی ماہرین کے لیے بھی ان کی شناخت مشکل ہو جاتی ہے۔بہرحال اس سے جو زخم پیدا ہوتاہے خواہ جسم کے کسی حصہ میں پیداہو ،صحت کے لیے سخت مضر ہے ۔ان جراثیم کا علاج اب تک دریافت نہیں کیاجاسکا ہے ۔ان وجوہ سے ضروری ہے کہ ہم تمام ممکنہ وسائل کے ساتھ اس لا علاج بیماری کا مقابلہ کریں اور انسان کو اس کے خطرات سے بچائیں۔
جرمن ڈاکٹر نوللر کا بیان ہے کہ کتے کے جراثیم سے انسان پر جو زخم ابھر آتے ہیں ان کی تعداد ایک فی صد سے کسی طرح کم نہیں ہے اور بعض ممالک میں تو بارہ فیصد تک اس میں مبتلا پائے جاتے ہیں…….اس مرض کا مقابلہ کرنے کی بہترین صورت یہ ہے کہ ان جراثیم کو کتوں تک ہی رہنے دیاجائے اورانہیں پھیلنے نہ دیاجائے……..
اگر انسان اپنی صحت کو محفوظ اور اپنی زندگی کو باقی رکھنا چاہتا ہے تو اسے کتوں کے ساتھ خوش طبعی نہیں کرناچاہیے ، انہیں قریب آنے سے روکناچاہیے ،بچوں کو ان کے ساتھ گھل مل جانے سے بازرکھناچاہیے۔کتوں کوہاتھ چاٹنے کے لیے نہیں چھوڑ دیناچاہیے اورنہ ان کو بچوں کے کھیل کود اورتفریح کے مقامات میں رہنے اور وہاں گندگی پھیلانے کا موقع دیناچاہیے ۔لیکن بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ کتوں کی بڑی تعداد بچوں کی ورزش گاہوں میں پائی جاتی ہے……
اسی طرح ان کے کھانے کے برتن الگ ہونے چاہئیں۔انسان اپنے کھانے کے لیے جو پلیٹیں وغیرہ استعمال کرتاہے ان کو کتوں کے آگے چاٹنے کے لیے نہ ڈال دیاجائے۔غرضیکہ پوری احتیاط سے کام لے کر ان کو کھانے پینے کی تمام چیزوں سے دور رکھا جائے”۔
قارئین کرام سے گزار ش ہے کہ وہ ان معلومات کو بغور پڑھیں اور پھر ان کا موازنہ نبی مہرباں ،آقائے دوجہاں  صلی اللہ علیہ وسلمکے ان فرمودات کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں کہ جن میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر میں کتے پالنے سے منع فرمایا ہے۔مقام غور ہے کہ کیا اس زمانے میں کوئی جدید لیبارٹری موجود تھی کہ جہاں سے حاصل ہونے والی معلومات کی بناء پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ کرام  کو ان باتوں کی تلقین فرمائی ؟۔یقیناایسی بات نہیں تھی ،تو پھر ان نصیحتوں کا مأخذکیاتھا؟ہمارا ایمان ہے کہ وہ مأخذ !رب ذوالجلال کی ذات بابرکات ہے ۔اس کاثبوت قرآن مجید کی سورة النجم کی اس آیتِ مبارکہ میں ملتاہے :کہ ” وہ (رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم)اپنی خواہش ِ نفس سے نہیں بولتا ۔یہ تو ایک وحی ہے جو اس کی طرف کی جاتی ہے ۔”اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن و حدیث کو سمجھنے ،ان پر ایمان رکھنے اور ان کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین
موٴلف ۔ طارق اقبال سوہدروی ۔  جدہ ۔ سعودی عرب

نفرت نہیں، محبت

نفرت نہیں، محبت

ہم اپنی زندگی میں نہ جانے کتنی نفرتیں پالتے ہیں۔ محبت بکھیرنے کی بجائے ، فاصلے بکھیڑتے ہیں۔ نفرت نے سوچ کو محدود کیا، رائے و تحقیق کو تعصب کی نگاہ بخشی۔ زندگی کی گوناگونی میں متناقص و متناقض بے چینی پیدا کی۔ ژرف نگاری کے نام پر ضرب کاری ہونے لگی۔ پیدائش کا نطفہ بخیلی سے جنم لینے لگا۔ اسلام کے نام پر کرخت مزاجی بھڑکنے لگی۔

ہم آئے روزمنفی و تخریبی موضوعات پر تحاریرلکھتے ہیں۔اِن منفی موضوعات کومثبت انداز میں تنقید کی نکتہ چینی کی بجائے ؛ اصلاحی رنگ دے سکتے ہیں۔ ہم نفرت پہ تو بات کرتے ہیں۔ اگر نفرت کی ضد محبت سے بات کرے تو ہمارے اذہان و قلوب میں خوب صورت کیفیات ہی مرتب ہو سکتی ہے۔

آج ہمارا ادیب بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ اُس کو معاشرہ کی فحش گوئی بیان کرنے کے لیے اب طوائفہ سے معشوقہ کی تلاش ہونے لگی۔ سکینڈل بیان کرتے کرتے معاشرہ کو سکینڈل زدہ بنا دیا۔ کاش! کو ئی ادیب تعمیری سوچ کے ساتھ معاشرہ میں تعمیر بخشے۔ شاعر کی شاعری برہنہ گوئی رہ گئی۔ مقصد و خیال رخصت ہو چکے۔

ہمیں آج تعمیری سوچ کی ضرورت ہے۔ جاہلانہ اذہان دوسروں کی آپسی ملاقاتوں سے بھی بُرا تصور اخذکرتے ہیں۔ شاکی اذہان میں سازش ، بد نگاہوں سے برائی، متلون مزاجی سے وسواس قلوب میں جنم لیتے ہیں۔نہ جانے نفرتیں کہاں کہاں پنپ رہی ہیں۔

لاﺅتزے نے تاﺅ تے چنگ میں فرمایا تھا۔” جب دُنیا جانتی ہے؛ خوبصورتی جیسے خوبصورتی ہے، بدصورتی اُبھرتی ہے،جب جانتے ہیں، اچھائی اچھائی ہے، برائی بڑھتی ہے“

مینیشس نے کہا تھا،” برائی کی موجودگی اچھائی کی شان ہے۔ برائی کی ضد اچھائی ہے۔ یہ ایک دوسرے سے بندھی ہے۔برائی کی کایا اچھائی میں پلٹ سکتی ہے۔ برائی کیا ہے؟ ایک وقت میں تو وُہ ہے،مگر بعدکے کسی دور میں وُہ اچھائی ہوسکتی ہے کسی اور کے لیے۔“

مذاہب محبت کی بات کرتے ہیں۔ عبادت گاہیں محبت کی مرکز ہیں مگر آج فرقوں کے نام پر نفرتیں بٹ رہی ہیں۔ گیتا، جپ جی صاحب، سُکھ منی صاحب، ادی گرنتھ صاحب،تاﺅتے چنگ محبت ہی کی تعلیم دے رہی ہیں۔ یہ اخلاقی تعلیمات کے لازوال شاہکارہیں۔ہر مذہب میں جھوٹ، شراب، جوائ، زنا، جھوٹی گواہی کی پابندیاں عائد ہیں۔ ان سے انحراف معاشرہ میں نفرت کا جنم ہے۔

ناکام معاشرے اپنی خامیوں کی پردہ پوشی کرتے ہیں، دوسروں کی خوبیوں کی عیب جوئی فرماتے ہیں,۔تنگ نظر اذہان تنگ نظری کی بات کرتے ہیں۔ کچھ لوگ خو د کو راجپوت، سید اور اعوان کہلانے پر فخر کرتے ہیں۔دوسروں کو اپنی احساس کمتری کے باعث کمی کمین کہتے ہیں۔ بھئی فخر کرنے کے لیے ویسے اعمال بھی ہونے چاہیے۔ راجپوت اپنی خودداری، وطن پرستی اور غیرت کی روایات کی پاسداری کرتے تھے ۔کٹھن حالات میں’ جوہر ‘ کی رسم ادا کرتے تھے۔ جب راجپوت اپنا دفاع ناکام ہوتا دیکھتے تو عورتیں بچوں سمیت آگ میں کود پڑتیں تاکہ بے حرمتی کی ذلت سے بچ سکیں۔یوںمرد اپنے گھر بار کی فکر سے آزاد ہوکرآخر دم تک لڑتے ہوئے ؛ وطن کے تحفظ پر جان قربان کر تے تھے۔ دشمن کی فتح تب ہوتی، جب کوئی راجپوت باقی نہ رہتا۔ رانااودے سنگھ، رانا پرتاب سنگھ نے مغل عہد میںراجپوت خودداری کو قائم رکھا۔سید اور اعوان خود کوحضرت علی رضی اللہ عنہ کی اُولاد ہونے پر ناز کرتے ہیں۔ شان تویہ ہیں؛جب اعمال و کردار حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نقش قدم کے مطابق ہو۔ ورنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام سن کر سر شرمندگی سے جھک جائے۔لوگ خود کو سردار، نواب ، راجگان ،ملک،بیگ، خان، رانا، چوہدری اور قاضی وغیرہ کے ناموں سے متعارف کرواتے ہیں۔ ایسے تاریخی سرکاری عہدوں اور القابات کا قبیلہ سے کوئی تعلق نہیں۔ کیا ہم میں کوئی ایسی خصوصیت ہے کہ ہمیں آج کی سرکار کوئی رتبہ عنائیت فرمائے۔ جب ہم میں ایسی کوئی خاصیت نہیں تو ہم ترقی پانے والے لوگوں کے کم ذات ہونے پر تبصرہ کیوں کرتے ہیں ؟ دراصل ہم اپنی احساس کمتری کو احساس برتری سے چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ غالب کا مصرع ہے:

دِل کو خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

محبت بانٹنے سے بڑھتی ہے اور نفرت سمیٹنے سے پھیلتی ہے۔ نفرتیں مت سمیٹوں۔تعصب کی عینک اُتار کر دیکھو تو سوچ کی وسعت خوب پھیلے گی ۔ ورنہ بند گلی کے بند راہی بنو گے۔

زندگی کا حسن محبت، نعمتِ خداوندی مسکراہٹ ہے۔ بندوں سے تعصب، دِل میں خدا کی محبت کو بھی دور کرتا ہے۔ اللہ سے محبت اللہ کے بندوں سے محبت ہے۔

میرے ذہن میں ایک سوال بچپن سے اُمڈتا ہے۔ اسلام خوش اخلاقی کی عملی تربیت دیتا ہے۔ ہمارے بیشتر مذہبی نمائندگان یا وُہ افراد جو مذہبی جھکاﺅ زیادہ رکھتے ہیں۔ دِن بدن اُنکے مزاج میں کرختگی اور برداشت کی کمی کیوں واقع ہوتی جا رہی ہے؟ اپنے گروہ کے سواءکسی اور کو سلام کرنا گوارہ کیوں نہیں کرتے۔ غیر مذہبی افراد کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا تو سکتے ہیں۔ مگر مسلمان بھائی کے ساتھ بیٹھنا کیوں گوارہ نہیں؟ یہ وُہ عملی مناظر ہے، جس نے آج کے نوجوان کوپریشان کیاہے۔

برصغیر میں مسلمانوں کی آمد اور شاہجہانی دور کی عظمت ایک دِن یا عرصہ کی بات نہیں،یہ صدیوں کے تاریخی تسلسل میں نکلنے والی کونپل تھی، جسکی خوشبو میں نفرت کی بدبو گھٹتی گئی اور محبت پھیلی۔ اردو میل ملاپوں میں آسودہ ہوئی۔ علاقائی تعصبات سے آلودہ ہوئی۔پاکستان میں معاشرتی زندگی کا جو تصور تحریک آزادی میں پیش کیا گیا تھا۔ مذہبی آزادی و رواداری تھا۔ آج مسلکی بنیادوں پر نفرتیں سرائیت کر چکی۔ اے اللہ! ہمیں ایسی تحقیق سے محروم فرما، جس میں ہم تاریخ ِ اسلام کی عالیٰ مرتبت بزرگان کے مسلک کی تلاش کریں۔ ہمیںمسلک کی بنیاد پر نفرت سے بچا۔

مجھے کبھی کبھی افسوس ہوتا ہے۔ غیر جانبدارانہ رویہ بھی موت کا سبب بنتا ہے۔ابن رشد نے یونانی تراجم یونانی رو سے کیے تو ملحد ہوکر خارج الاسلام قرار دیا گیا۔ شہزادہ دارالشّکوہ نے سکینة الاولیاءاور سفینة الاولیاءایام جوانی میں تحریر فرما کر بڑا نام پایا۔ مگر ہندی تراجم ہندوﺅانہ روح سے کرکے مرتد قرار دیکر واجب القتل ٹھہرا اور سولی پر چڑھایا گیا۔ شائید ہر دور کا ارسطو زہر کا پیالہ پینے کو ترجیح دیتا ہے۔ اُس زمانے میں افلاطون نے شہر چھوڑا تھا۔ آج لوگ خاموش ہوگئے ہیں۔

یہ نفرتیں ہی ہیں۔ جنھوں نے ہماری زندگی میں تنہائیاں ہی جنم دی ہیں۔ خوشی اور غمی کے جذبات سے عاری معاشرہ پنپ رہا ہے۔ ہمیں سوچنا ہے ہم اپنی نسل کو کیا منتقل کر رہے ہیں!

ہماری عیدین گزرتی ہیں۔ذرا سوچئے! آپ کتنی خوشیاں بکھیرتے ہیں؟ کتنے چہروں پر مسکراہٹ لاتے ہیں؟کسقدر رخنہ زدہ بندھنوں کو اِک لڑی میں پروتے ہیں؟ کیا عید کے روز ماتھا پہ شکن، گفتگو میں گالم گلوچ، دِل میں بغض، حسد، کینہ اور رویوں میں نفرت ہونی چاہیے؟ عید کے روز خلاف مزاج بات پر سخت الفاظ منہ سے نکالنا بھی میرے خیال میں عید کی توہین ہے۔

کیا ہم سال میں صرف عیدین کے دو ایاّم کو اپنے رویہ سے خوبصورت نہیں بنا سکتے ،جہاں صرف محبت ہی محبت آپ سے مِل رہی ہو؟ معاشرہ کا ردّعمل جو بھی ہو، عید کے روز خود کو محبت کو عملی نمونہ بنائے۔

عید کے روز میرے ایس -ایم-ایس پہ پریشان مت ہوا کریں۔ میں آپ سب سے بھی خوشی بانٹ رہا ہوتا ہوں۔ میں عیدین پر اپنے ہزاروں چاہنے اور جاننے والوں کو نیک تمناﺅں کا پیغام بھیجتا ہوں اور رہونگا۔ لہذا! آپ نہ تو تذبذب کا شکار ہو اور نہ شک میں پڑیں۔ کیونکہ محبت کو شک کھا جاتا ہے۔

(فرخ نور)

مشکل الفاظ کے معنی

گوناگونی : ورائٹی، مختلف اقسام

متناقص: نقص رکھنے والا، ناقص، نامکمل

متناقض: مخالف، برعکس، اُلٹا، خلاف

میرے منتخب اقوال،پختون کی بیٹی – باب دوئم سے۔ . سید تفسیر احمد

پختون کی بیٹی
, سید تفسیر احمد, باب دوئم۔ اجتماع

1۔ خواب
2۔ تشخیص
3۔ تعمیل کا منصوبہ
4۔ سوچ ایک طریقہ ہے
5۔ خواہش
6۔ یقین و ایمان
7۔ آٹوسجیشن
8۔ تعلیمِ خصوصی
9۔ تصور
10۔ منظم منصوبہ بندی
11۔ ارادۂِ مصمم اور فیصلہ
12۔ ثابت قدم
13۔ ماسٹرمائنڈ
14۔ کامیابی کے اصول۔ ایک نظرِ ثانی

میرے منتخب اقوال،پختون کی بیٹی – باب دوئم سے۔

جوکھوں اور عزیمت کے ارادوں میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اپنی کشتی کوجلادیتے ہیں۔اس کشتی کو جلانے کے عمل سے دماغ کو روحانی کیفیت ملتی ہے یہ کیفیت جیتنے کی چاہت پیدا کرتی ہے جوکہ کامیابی کے لیے بہت ضروری ہے۔

یقین و ایمان

“ایمان تم کو جنت میں لے جاۓگا اور ایمانِ کامل جنت کو تمہارے پاس لاۓ گا”۔

یقینِ کامل دماغ کا کیمیاگر ہے۔ جب یقینِ کامل اورسوچ کی آمیزش ہوتی ہے۔ تو تحت الشعور ان کے مضطرب ہونے کو محسوس کر لیتا ہے اور اس کو روحانی برابری میں تبدیل کر دیتا ہے۔اور اس کو لا محدود حکمت میں منتقل کردیتا ہے۔ جس طرح کہ عملِ دعا ہے۔
تمام جذبات جو انسان کو فائدہ پہنچاتے ہیں ان میں یقین، لگن اور ہم آغوشئ جذبات سب سے ذیادہ طاقتور ہیں۔ جب یہ تین ملتے ہیں تو خیالات کو اس طرح رنگ دیتے ہیں کہ خیالات ایک دم سے تحت الشعور میں پہنچ کر لامحدود حکمت سے جواب لاتے ہیں۔ ایمان ایک ایسی دماغی کیفیت ہے جو کہ لامحدود حکمت کو جواب دینے کی ترغیب دیتی ہے”۔

ایمان ایک ایسا جذبہ ہے جس کو ایک ایسی دماغ اغرق ہو نے کی کیفیت کہہ سکتے ہیں جو ہم اظہار حلقی کے دہرانے سے پیدا کرسکتے ہیں”۔

سوچ کا جذباتی حصہ (ایمان و یقین) ، سوچ کو زندگی بخشتا ہے اور اس پرعمل کرنے پر اکساتا ہے۔یقین اور لگن کے جذبات یکجا ہوکرسوچ کو بہت بڑی قوت بنا دیتے ہیں۔

آٹوسجیشن
کسی چیز کو حاصل کرنے میں کامیابی کا پہلااصول اس چیز کی زبردست خواہش اور دوسرا اصول اپنی کامیابی کا یقین ہونا ہے۔

ک۔ اللہ تعالٰی نے ہر انسان کوایک دماغ دیا ہے“۔

۔ ” لیکن دماغ کو علمِ نفسیات میں کاموں کے لحاظ سے تین حصوں میں بانٹاگیا ہے۔

شعور، تحت الشعور اور لا شعور“۔

” تو ہم ان دماغ کے مختلف حصوں کو کس طرح اپنی کامیابی لیے استعمال کرتے ہیں؟“

اراد ہِ مصمم اور فیصلہ

کامیاب لوگوں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ جب کسی کام کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو بلا تؤقف فیصلہ کرتے ہیں۔اور جب فیصلہ کرلیں تو اس فیصلہ کو تبدیل کرنے میں وقت لیتے ہیں۔

جب تم نے اپنی قابلیت کے مطابق فیصلہ کرلیا تو دوسروں کی راۓ سے متاثر ہو کر فیصلہ تبدیل مت کرو۔

دنیا کو پہلے دکھاؤ کہ تم کیا کرنا چاہتے ہو اور پھر بتاؤ۔

فیصلہ کی قیمت کا انحصار جرات پر ہے۔ دنیا کے وہ فیصلے جن سے تہذیب کی بنیادیں رکھی گئیں، ان فیصلوں کے نتائج کو حاصل کرنے میں جانیں تک خطرے میں تھیں۔

سقراط پر جب یہ دباؤ ڈالا گیا کہ اگر اس نے اپنے خیالات نہ بدلے اور جمہوریت کی باتیں کرتا رہا تو اس کو زہر پی کر مرنا پڑے گا۔ سقراط نے اپنے خیالات نہیں بدلے اور اس کو زہر کا پیالہ دیا گیا۔

ظلم سے آزادی کی خواہش آزادی لاۓ گی۔

” سوچ + مقرر مقصد + قائم مزاجی + شدیدخواہش = کامیابئ مکمل”سعدیہ نے جواب دیا۔

آٹوسجیشن کا استعمال ان خیالوں جن کو آپ شدت سے چاہتے ہیں، شعور سے تحت الشعور میں رضاکارانہ طور پر پہہنچا دیتا ہے“

خواہش ِ < — شدت < — شدیدخواہش
(شعور) < — (آٹوسجیشن) < — (تحت الشعور)

تعلیمِ خصوصی

” ایک تعلیم کا حصول ، دوسرے تعلیم کا سمجھنا ، اور تیسرے تعلیم کا استعمال۔ جب تک آپ تعلیم کو استعمال نہ کریں تعلیم پوری نہیں ہوتی

” تعلیم صرف ایک صورتِ امکانی ہے۔ یہ اُس وقت ایک قوت بنتی ہے جب اس کو مقصد کے حصول کے لیے منظم کیا جاتا ہے ا ور اس کا رُخ مقرر خاتمہ کی طرف کیا جاۓ۔سینکڑوں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئ شخص اسکول نہ جاۓ تو وہ تعلیم یا فتہ نہیں ہے۔ ایجوکیشن ایک اٹالین لفظ ’ ایڈوکو‘ سے بنی ہے۔ جس کے معنی ’ اندر سےابھرنا ، انکشاف کرنا ‘۔ ضروری نہیں کہ تعلیم یافتہ شخص وہ ہو جس کے پاس تعلیم عامہ یا تعلیم مخصوصہ کی بہتاب ہے، تعلیم یافتہ شخص وہ ہے جس نے اپنے ذہن کو تربیت دی ہے۔ تعلیم یافتہ شخص کسی کا حق مارے بغیر ہر اس چیز کو حاصل کرلیتا ہے جو اس کو پسند ہے“۔

تصور

” انسان ہر وہ چیز کرسکتا ہے جس کو وہ سوچ سکتا ہے“۔

منظم منصوبہ بندی

ہر چیز جو انسان بناتا ہے یا حاصل کرتا ہے وہ خواہش سے شروع ہوتی ہے“۔

خواہش کا پہلا قدم عدمِ وجود سے وجود میں تبدیل ہونا ، قوت متصورہ کے کارخانہ میں ہوتا ہے۔جہاں پر اس کی تبدلی کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔

دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔قائداورمعتقد۔ کچھ لوگ قائد بنتے ہیں کیوں کہ ان میں دلیری ، ضبط ، انصاف پسندی ، ا ستقلال، منصوبہ ، محنت پسندی ، خوش گوار شخصیت ، ہمدردی اور پکی سمجھ ، تفصیل کا مہارت ، ذمہ داری اور مل کر کام کرنے کی صفات ہو تی ہیں۔ معتقد لوگ ، قائد کا کہا مانتے ہیں۔ معتقد ہونا کوئ بری بات نہیں۔ بہت دفعہ ایک قائد، معتقد میں سے ہی بنتا ہے۔

وہ قائد ، اپنے مقصد میں کا میاب نہیں ہوتے ہیں جوکام کی تفصیل سے بھاگتے ہیں اور صرف وہ کام کرنا چاہتے ہیں جو ان کی حیثیت کے برابر ہو، چھوٹا کام کرنا نہیں پسند کرتے۔ وہ اپنی تمام قابلیت، یعنی اپنی تعلیم کے مطابق صلہ مانگتے ہیں اپنے کام کے مطابق نہیں۔جومتقدوں سے مقابلہ کرتے ہوۓ گھبراتے ہیں۔ جن میں صورت متخیلہ نہیں ہوتی اور خود غرضی کا شکار ہوتے ہیں۔

منظم منصوبہ بندی کے اصول

1۔ جتنے ساتھیوں کی اپنے منصوبہ پر عمل کرنے کے لیے ضرورت ہے ان کو اپنے مہتممِ دماغ علم یا ماسٹر مائنڈ کا پارٹنر بنالیں۔

2۔ تمام شرکاء اور شریکِ کار کو پتہ ہو نا چاہیے کہ اس شرکت میں ان کی کیا ذمہ داری ہے۔

3۔ جب تک کہ منصوبہ مکمل نہ ہوجاۓ، تمام شرکاء اور شریکِ کارکو کم از کم ہفتہ میں دو دفعہ ملنا چاہیے۔

4۔ جب تک کہ منصوبہ مکمل نہ ہوجاۓ تمام شرکاء اور شریکِ کار کو میل اور اتفاق سے رہنا چاہیے۔

.ماسٹرمائنڈ

” علم ایک طاقت ہے“۔اباجان نے کہا۔ کامیابی کے لیے طاقتِ علم کا ہونا ضروری ہے“

” منصوبے بغیر معقول طاقتِ علم کے غیرمؤثراور بے کار ہیں اور ان کو عمل میں تبدیل نہیں کیاجاسکتا“۔

” دما غی قوت ، یہاں ایک منظم اوردانش مند علم کو مسئلۂ مرکوز پر توجہ کرنے کے معنی میں استمعال کی گئ ہے“۔

علم کے حاصل کرنے کے تین ذرائع ہیں۔

ایک ۔ لا محدود قابلیت۔

دو ۔ جمع کیا ہوا علم، پبلک لائبریری، پبلک سکول اور کالج۔

تین ۔ تجربات اور تحقیقات، سائنس اور تمام دنیاوی چیزوں میں انسان ہر وقت جمع کرتا ہے، باترتیب رکھتا ہے اور ہرروز مرتب کرتا ہے“۔

علم کوان ذرائع سے حاصل کر کے منصوبۂ مقرر میں مننظم کرنا اور پھر منصوبوں کو عمل میں تبدیل کرنا، دماغ کی طاقتِ علم ہے۔
اگر منصوبہ وسیع ہے تو آپ کو دوسرے لوگوں کے دماغ کی طاقتِ علم کی مدد کی ضرورت گی“۔

” جب دو یا دو سے ذیادہ لوگ ایک مقرر اور مخصوص مقصد کو حاصل کر نے کے لیے علم کی ہم آہنگی کرتے ہیں تو وہ ماسٹرمائنڈ کہلاتے ہیں“۔

برزخ اور اس کا عذاب

بزرخ کے معنی: دو چیزوں کے درمیان حائل چیز کو برزخ کہتے ھیں [1]یہ موت اور قیامت کے درمیان کا واسطہ ھے ، او راسی عالم برزخ میں روز قیامت کے لئے انسان نعمتوں سے نوازا جائے گا یا اس پر عذاب ھوگا[2]خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:
< مِنْ وَرَائِہِمْ بَرْزَخٌ إِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ >[3]
”اور ان کے مرنے کے بعد (عالم) برزخ ھے (جہاں )سے اس دن تک کہ دوبارہ قبروں سے اٹھائے جائےں گے “۔
یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ھے کہ یہ عالم برزخ دنیاوی زندگی اور روز قیامت کے درمیان ایک زندگی کا نام ھے۔
عالم برزخ کے بارے میں حضرت امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ھیں:
”البرزخ:القبر ،وفیہ الثواب والعقاب بین الدنیا وآلاخرة“۔[4]
وحشت برزخ: جیسا کہ ھم بیان کر چکے ھیںکہ عالم آخرت کی زندگی موت سے شروع ھوتی ھے، انسان موت کے ذریعہ عالم آخرت میں پہنچ جاتا ھے، اور موت کے بعد درج ذیل قبر کے خوف و وحشت سے روبرو ھوتا ھے:
۱۔ وحشت قبر اور قبر کی تاریکی: قبر، معادکی وحشتناک منزلوں میں سے ایک منزل ھے، جب انسان کو ایک تاریک و تنگ کوٹھری میں رکھ دیا جاتا ھے جہاں پر اس کے مددگار صرف اس کے اعمال اور عذاب یا ثواب کے فرشتے ھوں گے۔
حضرت علی علیہ السلام اہل مصر کے نام ایک خط میں تحریر فرماتے ھیں:
”یا عباد الله،ما بعد الموت لمن لا یغفر لہ اشد من الموت؛القبر فاحذروا ضیقہ و ضنکہ وظلمتہ و غربتہ،ان القبریقول کل یوم :انابیت الغربة،انا بیت التراب،انا بیت الوحشة ،انا بیت الدود و الھوام۔۔۔ “۔[5]
”اے بندگان خدا! اگر انسان کی بخشش نہ ھو تو پھر موت کے سے سخت کوئی چیز نھیں ھے، (لہٰذا قبر کی تاریکی، تنگی اور تنہائی سے ڈرو!! بے شک قبر ہر روز یہ آواز دیتی ھے: میں تنہائی کا گھر ھوں، میں مٹی کا گھر ھوں، میں خوف و حشت کا گھر ھوں، میں کیڑے مکوڑوں کا گھر ھوں۔۔۔“۔(اے کاش ھم اس آواز کو سن لیں)
قارئین کرام! یھی وہ جگہ ھے کہ جب انسان زمین کے اوپر سے اس کے اندر چلا جاتا ھے، اہل و عیال اور دوستوں کو چھوڑ کر تنھاھوجاتا ھے، روشنی کو چھوڑ کر تاریکی میں چلا جاتا ھے، دنیا کے عیش و آرام کو چھوڑ کر تنگی اور وحشت قبر میں گرفتار ھوجاتا ھے، اور اس کا سب نام و نشان ختم ھوجاتا ھے اور اس کا ذکر مٹ جائے گا اس کی صورت متغیر ھوجائے گی اور اس کا جسم ابدان بوسیدہ اور جوڑ جوڑ جدا ھوجائیں گے۔
حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ھیں:
”فکم اکلت الارض من عزیز جسد ،وانیق لون ،کان فی الدنیا غذی ترف ،وربیب شرف، یتعلل بالسرور فی ساعة حزنہ و یفزع الی السلوة ان مصیبة نزلت بہ ،ضنا بغضارة عیشہ وشحاحة بلھوہ و لعبہ۔۔۔“۔[6]
”اُف! یہ زمین کتنے عزیزترین بدن اور حسین ترین رنگ کھاگئی ھے جن کو دولت و راحت کی غذامل رھی تھی اور جنھیں شرف کی آغوش میں پالا گیا تھا جو حزن کے اوقات میں بھی مسرت کا سامان کیا کرتے تھے اور اگر کوئی مصیبت آن پڑتی تھی تو اپنے عیش کی تازگیوں پر للچائے رہنے واور اپنے لھو و لعب پر فریفتہ ھونے کی بنا پر تسلی کا سامان فراھم کرلیا کرتے تھے“۔
(زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے؟!! )
۲۔ فشار قبر: احادیث میں وارد ھوا ھے کہ میت کو اس قدر فشار قبر ھوگا کہ اس کاگوشت پارہ پارہ ھوجائے گا، اس کا دماغ باہر نکل آئے گااس کی چربی پگھل جائے گی، اس کی پسلیاں آپس میں مل جائیں گی، اس کی وجہ دنیا میں چغل خوری اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ بداخلاقی، بہت زیادہ (بے ھودہ) باتیں کرنا، طہارت ونجاست میں لاپرواھی کرنا ھے، اور کوئی انسان اس(فشار قبر) سے نھیں بچ سکتا مگر یہ کہ ایمان کے ساتھ دنیا سے جائے اور کمال کے درجات پر فائز ھو۔
ابو بصیر کہتے ھیں کہ میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا کوئی شخص فشار قبر سے نجات پاسکتا ھے؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا:
”نعوذ باللہ منھا ۔ما اقل من یفلت من ضغطة القبر۔۔۔“۔[7]
”ھم اللہ کی پناہ مانگتے ھیں فشار قبر سے، بہت ھی کم لوگ فشار قبر سے محفوظ رھیں گے“۔
صحابی رسول سعد بن معاذ /کو بھی فشار قبر کے بارے میں روایت میں ملتا ھے کہ جب ان کا جنازہ اٹھایا گیا تو ملائکہ تشییع جنازہ کے لئے آئے اور خود رسول اکرم (ص)آپ کی تشییع جنازہ میں پابرہنہ اور بغیر عبا کے شریک ھوئے، یہاں تک کہ قبر تک لے آئے اور قبر میں رکھ دیا گیا تو امّ سعد نے کہا: اے سعد تمھیں جنت مبارک ھو ، تو اس وقت رسول اکرم نے فرمایا:
”یا ام سعد! مَہ لاتجزمي علی ربک ،فان سعدا قد اصابتہ ضمة“۔وحینما سُئل عن ذلک، قال(ص) ”انہ کان فی خلقہ مع اھلہ سوء“۔ [8]
”اے مادر سعد یہ نہ کھو ، تم اپنے رب کے بارے میں یہ یقینی نھیں کہہ سکتی، سعد پر اب فشار قبر ھورھاھے“۔
اور جب رسول اکرم (ص)سے اس کی وجہ معلوم کی گئی تو آنحضرت (ص)نے فرمایا کہ سعد اپنے اہل و عیال کے ساتھ بداخلاقی سے پیش آتے تھے“۔
رسول اکرم (ص)نے یہ بھی فرمایا:
”ضغطة القبر للموٴمن کفارة لما کان منہ من تضییع النعم“۔[9]
”فشار قبر مومن کے لئے کفارہ ھے تاکہ اس کی نعمتوں میں کمی نہ ھو۔“
۳۔ سوال منکر و نکیر: خداوندعالم، انسان کی قبر میں دو فرشتوں کو بھیجتا ھے جن کا نام منکر و نکیر ھے، یہ دوفرشتے اس کو بٹھاتے ھیں اور سوال کرتے ھیں کہ تیرا رب کون ھے ؟ تیرا دین کیا ھے؟ تیرا نبی کون ھے؟ تیری کتاب کیا ھے؟ تیرا امام کون ھے جس سے تو محبت کرتا تھا، تو نے اپنی عمر کو کس چیز میں صرف کیا، تونے مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیاھے؟ اگر اس نے صحیح اور حق جواب دیا تو ملائکہ اس کوراحت و سکون اور جنت الفردوس کی بشارت دیتے ھیں اور اس کی قبر کو تا حد نظر وسیع کردیتے ھیں، لیکن اگر اس نے جواب نہ دیا یا ناحق جواب دیا، یا اس کا جواب نامفھوم ھوا تو ملائکہ اس کی کھولتے ھوئے پانی سے میزبانی کرتے ھیں اور اس کو عذاب کی بشارت دیتے ھیں۔
بے شک اس سلسلے میں نبی اکرم (ص)اور اہل بیت علیھم السلام سے صحیح روایت منقول ھےں جن پر سبھی مسلمین اتفاق رکھتے ھیں [10]اور اس مسئلہ کو ضرورت دین میں سے مانتے ھیں۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:
”من انکر ثلاثة اشیاء ،فلیس من شیعتنا المعراج ،والمساء لة فی القبر ، والشفاعة “۔[11]
”جو شخص تین چیزوں کا انکار کرے وہ ھمارا شیعہ نھیں ھے، معراج، سوال منکر و نکیر، اور شفاعت“۔
۴۔ قبر میں عذاب و ثواب:یہ عذاب و ثواب عالم برزخ میں ایک مسلم حقیقت ھے ، اور لامحالہ واقع ھوگا، کیونکہ اس کا امکان پایا جاتا ھے، آیات ِقرآن مجید اور نبی اکرم اور ائمہ معصومین علیھم السلام سے احادیث میں متواتر بیان ھوا ھے ، نیز اس سلسلے میں علماء کرام کا گزشتہ سے آج تک اجماع بھی ھے[12]
قرآنی دلائل: وہ آیات جن میں قبر میں ثواب و عذاب کے بارے میں بیان ھوا یا بعض آیات کی تفسیر عذاب و ثواب کی گئی ھے، جن میں سے بعض کو ھم نے ”روح کے مجرد ھونے“ کی بحث میں بیان کیا ھے، ھم یہاں پر دو آیتوں کو پیش کرتے ھیں:
< وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ النَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَعَشِیًّا وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ اٴَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ اٴَشَدَّ الْعَذَابِ> [13]
”اور فرعونیوں کو برے عذاب نے(ہر طرف سے )گھیر لیا (اور اب تو قبر میں دوزخ کی) آگ ھے کہ وہ لوگ (ہر)صبح و شام اس کے سامنے لا کرکھڑے کئے جاتے ھیں اور جس دن قیامت برپا ھوگی (حکم ھوگا کہ )فرعون کو لوگوں کے سخت سے سخت عذاب میں جھونک دو“۔
یہ آیہ شریفہ وضاحت کرتی ھے کہ قبر میں ثواب و عذاب ھوگا کیونکہ اس آیت میں ”واو“کے ذریعہ عطف کیا گیا ھے <وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ۔۔۔> جو اس بات کا تقاضا کرتا ھے کہ اس سے پہلے بیان شدہ ایک الگ چیز ھے اور اس کے بعد بیان ھونے والا مطلب الگ ھے، کیونکہ پہلے صبح و شام آگ نے گھیر رکھا ھے، اور اس کے بعد روز قیامت کے عذاب کے بارے میں بیان کیا گیا ھے، اسی وجہ سے پہلے جملے میں <عَرَضَ> (گھیرنے کے معنی) ھیں اور دوسرے جملہ میں <اٴَدْخِلُوا> (داخل ھوجاؤ)کا لفظ استعمال ھوا ھے۔[14]
اس آیت کی تفسیر میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی ھے کہ آپ نے فرمایا:
”ان کانوا یعذبون فی النار غدوا و عشیا ففیما بین ذلک ھم من السعداء ۔لا ولکن ھذا فی البرزخ قبل یوم القیامة ،الم تسمع قولہ عزوجل:<وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ اٴَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ اٴَشَدَّ الْعَذَابِ>؟“۔[15]
” اگر وہ صبح و شام عذاب میںھوں گے اگرچہ ان کے درمیان کچھ نیک افراد بھی ھوں لیکن یہ سب برزخ میں ھوگا قبل از قیامت، کیا تو نے خداوندعالم کے اس فرمان کو نھیں سنا: ”اور جب قیامت برپا ھوگی تو فرشتوں کو حکم ھوگا کہ فرعون والوں کو بدترین عذاب کی منزل میں داخل کردو“۔
۲۔ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:
< وَمَنْ اٴَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِی فَإِنَّ لَہُ مَعِیشَةً ضَنکًا وَنَحْشُرُہُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ اٴَعْمَی>[16]
”اور جس نے میری یاد سے منھ پھیرا تو اس کی زندگی بہت تنگی میں بسر ھوگی اور ھم اس کو قیامت کے دن اندھا( بنا کے) اٹھائیں گے“۔
بہت سے مفسرین کہتے ھیں کہ ”سخت اور تنگ زندگی“ سے مراد عذاب قبر اور عالم برزخ میں سختیاں اور بدبختی ھے، قرینہ یہ ھے کہ حرف عطف ”واو“ کے ذریعہ حشر کا ذکر کیا جو اس بات کا تقاضا کرتا ھے کہ یہ دونوں چیزیں الگ الگ ھوں۔ سخت زندگی سے دنیا کی پریشانیاں مراد نھیں لی جاسکتیں کیونکہ دنیا میں بہت سے کفار کی زندگی مومنین سے بہتر ھوتی ھے، اور ایسے چین و سکون کی زندگی بسر کرتے ھیں کہ اس میں کسی طرح کی کوئی پریشانی نھیں ھوتی ھے۔[17]
حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ھیں:
”واعلموا ان المعیشة الضنک التی قالھا تعالیٰ :<فَإِنَّ لَہُ مَعِیشَةً ضَنکًا >ھی عذاب القبر“۔[18]
جان لو کہ (مذکورہ بالا) آیت میں سخت اور تنگ زندگی سے مراد عذاب قبر ھے“۔
احادیث سے دلائل: قبر کے عذاب و ثواب پر دلالت کرنے والی متعدد احادیث شیعہ سنی دونوں طریقوں سے نقل ھوئی ھیں،[19] اور بڑی تفصیل کے ساتھ بیان ھوئی ھیں، بعض کو ھم نے ”روح کے مجرد ھونے“ کی بحث میں بیان کیا ھے، یہاں پر ان میں سے صرف تین احادیث کو بیان کرتے ھیں:
۱۔ حضرت رسول اکرم (ص)ارشاد فرماتے ھیں:
”القبر اما حفرة من حفرالنیران او روضة من ریاض الجنة“۔[20]
”قبر یا دوزخ کے گڈھوں میں سے ایک گڈھا ھے یا جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ھے“۔
۲۔ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ھیں:
”یسلط علی الکافر فی قبرہ تسعة و تسعین تنینا،فینھشن لحمہ ، و یکسرن عظمہ ،و یترددن علیہ کذلک الی یوم یبعث ،لوان تنینا منھا نفخ فی الارض لم تنبت زرعا ابدا۔۔۔“۔[21]
”خداوندعالم کافر کی قبر میں ۹۹ اژدھے مسلط کرتا ھے، جو اس کے گوشت کو ڈستے ھوں گے اور اس کی ہڈیوں کو کاٹ کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کردےں گے،اور روز قیامت تک وہ اژدھے اس پر عمل کرتے رھیں گے کہ اگر وہ ایک پھونک زمین پر ماردیں تو کبھی بھی کوئی درخت اور سبزہ نہ اُگے“۔
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے درج ذیل آیت کے بارے میں سوال کیا گیا:
< مِنْ وَرَائِہِمْ بَرْزَخٌ إِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ >[22]
”اور ان کے مرنے کے بعد (عالم) برزخ ھے (جہاں )سے اس دن تک کہ دوبارہ قبروں سے اٹھایے جائےں گے “۔
تو آپ نے فرمایا:
”ھوالقبر،وان لھم فیہ لمعیشة ضنکا ، واللہ ان القبر لروضة من ریاض الجنة،اوحفرة من حفر النیران“۔[23]
”اس آیت سے مراد قبر ھے،اور کفار کے لئے سخت اور تنگ زندگی ھے، قسم بخدا، یھی قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ھے یا جہنم کے گڈھوں میں سے ایک گڈھا ھے ‘ ‘ ۔
اعتراضات: قبر کے ثواب و عذاب کے بارے میں بعض اشکالات و اعتراضات کئے گئے ھیں جن میں سے اکثر عذاب و ثواب کی کیفیت کے بارے میں ھیں، کہ اس میں ثواب و عذاب کی کیفیت کیا ھوگی، لیکن اس سلسلے میں تفصیل معلوم کرنا ھمارے اوپر واجب نھیں ھے، بلکہ اجمالی طور پر قبر کے ثواب و عذاب پر عقیدہ رکھنا واجب ھے، کیونکہ یہ ممکن امر ھے، اور معصومین علیھم السلام نے اس سلسلے میں بیان کیا ھے، اور تمام غیبی امور اسی طرح ھیں کیونکہ غیبی امور عالم ملکوت سے تعلق رکھتے ھیں جس کو ھماری عقل اور ھمارے حواس نھیں سمجھ سکتے۔
ھم یہاں پر عالم برزخ پر ھونے والے بعض اھم اعتراضات بیان کرکے قرآن و حدیث کے ذریعہ جوابات پیش کرتے ھیں:
۱۔ جب انسان کا بدن ھی روح تک عذاب پہنچنے کا وسیلہ ھے تو بدن سے روح نکلنے کے بعد انسان پر کس طرح عذاب یا ثواب ھوگا، جب کہ بدن بوسیدہ ھوچکا ھوگا۔
جواب: احادیث اس بات پر دلالت کرتی ھیں کہ خداوندعالم انسان کو منکر نکیر کے سوالات کے لئے دوبارہ زندہ کرے گا، اور اگر وہ مستحق نعمت ھے تو اس کو ھمیشہ کے لئے حیات دےدی جائے گی، اور اگر عذاب کا مستحق ھے تو بھی ھمیشہ کے لئے اس کو عذاب میں باقی رکھا جائے گا، عذاب ھونے والا بدن ،یھی دنیاوی بدن ھوگا یا اس بدن کے مثل ایک بدن ھوگا۔ احادیث میں ان دونوں کے سلسلے میں بیان کیا گیا ھے:
اول: یھی دنیاوی بدن زندہ کیا جائے گا: یعنی خداوندعالم انسان کی قبر میں اس کے بدن میں روح لوٹادے گا، اور متعدداحادیث اس بات پر دلالت کرتی ھیں، جیسا کہ حضرت رسول اکرم (ص)سے (ایک حدیث کے ضمن) مروی ھے کہ آنحضرت (ص)نے فرمایا:
”تعاد روحہ فی جسدہ ،ویاتیہ ملکان فیجلسانہ“۔[24]
”(انسان کی)روح اس کے بدن میں لوٹا دی جائے گی اور دو فرشتے اس کو بٹھاکر سوال و جواب کریں گے“۔
حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ھیں:
”فاذادخل حفرتہ ،ردت الروح فی جسدہ ،وجاء ہ ملکا القبر فامتحناہ“۔[25]
”جب انسان کو اس کی قبر میں اتاردیا جائے گا تو اس کی روح اس کے بدن میں واپس لوٹا دی جائے گی اور دو فرشتے اس کے امتحان کے لئے آئیں گے“۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:
”ثم یدخل ملکا القبر ،وھما قعیدا القبر منکر و نکیر ،فیقعد انہ و یلقیان فیہ الروح الی حقویہ“۔[26]
”۔۔۔ اس کے بعد قبر میںدومنکر و نکیر آئیں گے، اور قبر کے دونوں کناروں پر بیٹھیں گے اس کو بٹھائیں گے اور اس کے جسم میں ہنسلیوں تک روح داخل کردےں گے“۔
اسی وجہ سے کھاگیا ھے کہ قبر کی حیات ،حیات ِبرزخی اور ناقص ھے، اس میں زندگی کے تمام آثار نھیں ھوتے سوائے احساس درد و الم اور لذت کے، یعنی عالم برزخ میں روح کا بدن سے کمزور سا رابطہ ھوتا ھے، کیونکہ خداوندعالم قبر میں صرف اتنی زندگی عطا کرتا ھے جس سے درد و الم اور لذت کا احساس ھوسکے۔[27]
دوم: مثالی بدن کو عذاب یا ثواب دیا جائے گا: احادیث میں وارد ھوا ھے کہ
خداوندعالم انسان کے لئے عالم برزخ میں ایک لطیف جسم مثالی میں روح کو قرار دے گا، ایسا مثالی بدن جو دنیا کے بدن سے مشابہ ھوگا، تاکہ قبر میں اس سے سوالات کئے جاسکیں اور اس کو ثواب یا عذاب دیا جاسکے، پس اسی عالم میں روز قیامت تک کے لئے اس کو ثواب یا عذاب دیا جائے گا، اور روز قیامت اسی بدن میں انسان کی روح لوٹائی جائے گی۔[28]
ابو بصیر سے روایت ھے کہ میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے مومنین کی ارواح کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا:
”فی الجنة علی صورا بدانھم ،لورایتہ لقلت فلان“۔[29]
”جنت میں ان کی روح ان کے جسم میں لوٹائی جائے گی کہ اگر تم روح کو دیکھو گے تو کھوگے کہ یہ فلاں شخص ھے“۔
یونس بن ظبیان سے مروی ھے کہ میں حضرت امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا، تو آپ نے فرمایا: مومنین کی ارواح کے سلسلے میں لوگ کیا کہتے ھیں؟ تو میں نے کہا: کہتے ھیں : عرش کے نیچے پرندوں کے پوٹوں میں رہتی ھےں، اس وقت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
”سبحان الله ! الموٴمن اکرم علی اللہ من ان یجعل روحہ فی حوصلة طیر۔یا یونس ،الموٴمن اذاقبضہ اللہ تعالیٰ صیر روحہ فی قالب کقالبہ فی الدنیا ،فیا کلون و یشربون ،فاذاقدم علیھم القادم عرفوہ بتلک الصورة التی کانت فی الدنیا“۔[30]
”سبحان اللہ! مومن خدا کے نزدیک اس سے کھیں زیادہ باعظمت ھے کہ اس کی روح کو پرندہ کے پوٹے میں رکھاجائے، اے یونس! جب خداوندعالم مومن کی روح قبض کرتا ھے تو اس کو دنیا کی طرح ایک قالب میں ڈال دیتا ھے، جس سے وہ کھاتا اور پیتا ھے، جب کوئی (دنیا سے جاتا ھے تو)اس کو پہچانتا ھے اور وہ اسی صورت میں رہتا ھے جس میں دنیا میں رہتا تھا“۔
اسی طرح امام صادق علیہ السلام سے ایک دوسری حدیث میں وارد ھوا ھے کہ آپ نے فرمایا:
”الموٴمن اکرم علی اللہ من ان یجعل روحہ فی حوصلة طیر،ولکن فی ابدان کابدانھم“۔۔[31]
”مومن خدا کے نزدیک اس سے کھیں زیادہ باعظمت ھے کہ اس کی روح کو پرندہ کے پوٹے میںرکھے، بلکہ انسان کی روح دنیا کی طرح ایک بدن میں ھوتی ھے“۔
اس کے علاوہ بھی بہت سی احادیث ھیں جو ھماری عرض کی ھوئی بات پر دلالت کرتی ھیں ۔[32]
قارئین کرام! مذکورہ باتوں کے پیش نظر احادیث میں بیان شدہ قبر کے ثواب و عذاب سے مراد عالم برزخ میں دوسری زندگی ھے جس میں انسان کی روح بدنِ مثالی میں قرار دی جائے گی ، لہٰذا آیات قرآن اور احادیث میں بیان شدہ روح کے مجرد ھونے اور عذاب و ثواب والا مسئلہ حل ھوجاتا ھے، کہ انسان کی روح مجرد بھی ھے لیکن اس پر عذاب و ثواب بھی ھوتا ھے اور اس کی روح پرواز بھی کرتی ھے اور اپنے اہل و عیال اور دوسروں کو دیکھتی بھی ھے۔
سائنس جسم مثالی کی تائید کرتا ھے :احضار روح کے ماہرین کے تجربوں سے اجسام مثالی کی حقیقت کا پتہ چلتا ھے جیسا کہ اس سلسلہ میں مشھور ماہرین کہتے ھیں: در حقیقت موت کچھ نھیں ھے مگر یہ کہ ایک مادی جسم سے دوسرے مادی جسم میں منتقل ھوجانا، لیکن وہ دوسرا (مادی جسم) اس دنیاوی جسم سے زیادہ واضح اور لطیف ھوتا ھے۔ ان کا یہ بھی عقیدہ ھے کہ روح کے لئے ایک بہت زیادہ شفاف اور لطیف مادہ ھوتا ھے ، لہٰذا اس پر مادہ کے قوانین جاری نھیں ھوسکتے۔[33]
کیا یہ باطل تناسخ نھیں ھے؟
بعض لوگوں نے گمان کیا ھے کہ انسان کی روح کا اس دنیاوی بدن سے جدا ھونے کے بعد اسی جیسے بدن میں چلاجانا یہ وھی باطل تناسخ ھے ، جو صحیح نھیں ھے، کیونکہ ضرورت دین اور اجماع مسلمین تناسخ کی نفی کرتے ھیں حالانکہ بہت سے متکلمین اور محدثین جسم مثالی کے قائل ھوئے ھیں، اور ائمہ معصومین علیھم السلام کی احادیث میں بیان ھوا ھے، لیکن تناسخ کے قائل لوگوں نے اس کا انکار کیا ھے اور اسی وجہ سے معاد اور ثواب و عذاب کا انکار کرتے ھیں، کہتے ھیں کہ یہ روح دوبارہ اسی دنیا میں دوسرے بدن میں آجاتی ھے، لہٰذا قیامت کا کوئی وجود نھیں ھے، نیز یہ لوگ تناسخ کے ذریعہ خالق اور انبیاء علیھم السلام کا بھی انکار کرتے ھیں، نیز لازمہ تناسخ وظائف اور تکالیف کا بھی انکار کرتے ھیں، اور اسی طرح کی دوسری بے ھودہ باتیں ھیں[34]
۲۔ اس سلسلے میں دوسرا اعتراض یہ ھے کہ قبر میں کس طرح ثواب و عذاب ھوگا حالانکہ جنت یا دوزخ موجود نھیں ھے۔
جواب: وہ قرآنی آیات اور احادیث جن کو ھم نے قبر کے ثواب و عذاب کے دلائل کے عنوان سے بیان کیا ھے وہ اس بات پر دلالت کرتی ھیں کہ جنت اور دوزخ مخلوق (اور موجود)ھیں،اسی طرح امام صادق علیہ السلام سے مروی روایت بھی اس بات پر دلالت کرتی ھے کہ جب آپ سے مومنین کی روحوں کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا:
”فی حجرات فی الجنة ،یاکلون من طعامھا ،و یشربون من شرابھا“۔[35]
”(مومنین کی روحیں) جنت کے بالا خانوں میں رہتی ھیں جنت کا کھانا کھاتی ھیں اور جنت کا شربت پیتی ھیں“۔
اسی طرح امام صادق علیہ السلام کی دوسری حدیث:
”ان ارواح الکفار فی نارجھنم یعرضون علیھا“۔[36]
”کفار کی ارواح کوجہنم کی آگ کی سیر کرائی جاتی ھے“۔
شیخ صدوق علیہ الرحمہ فرماتے ھیں: جنت و جہنم کے سلسلے میں ھمارا یہ عقیدہ ھے کہ یہ دونوں مخلوق ھیں اور ھمارے نبی اکرم ﷺمعراج کی شب جنت کی سیر فرماچکے ھیں، اور جہنم کو بھی دیکھ چکے ھیں، اور اس وقت تک انسان اس دنیا سے نھیں جاتا جب تک جنت یا دوزخ میں اپناٹھکانا،نہ دیکھ لے“۔[37]
علامہ خواجہ نصیر الدین طوسی علیہ الرحمہ فرماتے ھیں:آیات و روایات جنت و دوزخ کے مخلوق ھونے پر دلالت کرتی ھیں، (یعنی جنت و نار اس وقت بھی موجود ھیں) لہٰذا جو روایات اس مفھوم کے مخالف اور متعارض ھیں ان کی تاویل کی جائے گی، علامہ حلی علیہ الرحمہ نے اپنی شرح میں اختلاف کو بیان کرتے ھوئے فرمایاھے:لوگوں کے درمیان یہ اختلاف ھے کہ جنت و نار اس وقت موجود اور مخلوق ھیں یا نھیں؟ بعض لوگوں کا عقیدہ ھے کہ جنت و نار مخلوق شدہ ھیں اور اس وقت موجود ھیں، اس قول کو ابوعلی اختیار کرتے ھیں، لیکن ابو ہاشم اور قاضی قائل ھیں کہ غیر مخلوق ھے (یعنی اس وقت موجود نھیں ھے۔
پہلانظریہ رکھنے والوں نے درج ذیل آیات سے استدلال کیا ھے:
< اٴُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِینَ>[38]
”اور ان پرھیزگاروں کے لئے مھیا کی گئی ھے“۔
< اٴُعِدَّتْ لِلْکَافِرِینَ>[39]
”اور کافروں کے لئے تیار کی گئی ھے“۔
< یَاآدَمُ اسْکُنْ اٴَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّةَ>[40]
”اے آدم تم اپنی بیوی سمیت بہشت میں رھاسھاکرو اور جہاں تمہارا جی چاھے“۔
<عِنْدَہَا جَنَّةُ الْمَاٴْوَی >[41]
”اسی کے پاس تو رہنے کی بہشت ھے“۔
جنة الماوی یھی دار ثواب ھے جو اس بات پر دلالت کرتا ھے کہ یہ اس وقت آسمان میں موجود ھے۔
ابو ہاشم نے اپنے نظریہ کے اثبات کے لئے درج ذیل آیت سے استناد کیا ھے:
<کُلُّ شَیْءٍ ہَالِکٌ إِلاَّ وَجْہَہ>[42]
”اس کی ذات کے سوا ہر چیز فنا ھونے والی ھے “۔
چنانچہ ابوہاشم نے کھاھے کہ اگر اس وقت جنت موجود ھوتی تو اس (روز قیامت) کا ہلاک اور نابود ھونا ضروری ھوتا، لیکن یہ نتیجہ باطل ھے، چونکہ خداوندعالم فرماتا ھے:
< اٴُکُلُہَا دَائِمٌ>[43]
”اور اس کے پھل دائمی ھوںگے“۔
چنانچہ علامہ حلّی علیہ الرحمہ نے جواب دیتے ھوئے فرمایا: اس کے پھل دائمی ھونے کا مطلب یہ ھے کہ اس قسم کے پھل ھمیشہ رھیں گے، کیونکہ اس طرح کے پھل ھمیشہ پیدا ھوتے رھیں گے، اور جنت کے پھل کھانے سے ختم ھوجاتے ھیں لیکن خداوندعالم دوبارہ ان جیسے پھل پیدا کردیتا ھے، یہاں پر ہلاک ھونے کے معنی ”فائدہ پہنچانے سے رک جانا“ ھیں، بے شک مکلفین کے ہلاک ھونے سے جنت بھی غیر قابل انتفاع ھوجائے گی، پس اس معنی کے لحاظ سے جنت بھی ہلاک ھوجائے گی۔[44]

____________

[1] لسان العرب / ابن منظور ۔برزخ ،۳:۸۔
[2] تفسیر المیزان ۳ طباطبائی ۱:۳۴۹۔
[3] سورہٴ مومنون آیت۱۰۰۔
[4] تفسیرقمی ،ج۱،ص۱۹،بحارالانوار ۳ علامہ مجلسیۺ،ج۶،ص۲۱۸/۱۲۔
”برزخ سے مراد قبر ھے جس میں انسان کو قیامت تک کے لئے ثواب یا عذاب دیا جائے گا“۔
[5] امالی شیخ طوسی ۺ :۲۸/۳۱،بحارالانوار ۶:۲۱۸/۱۳۔
[6] نہج البلاغہ / صبحی الصالح :۳۴۰ /خطبہ نمبر (۲۲۱)۔
[7] اصول کافی /اکلینی۳:۲۳۶/۶۔
[8] علل الشرائع :۳۰۹/۴امالی الصدوق :۴۶۸/۶۲۳،امالی شیخ طوسی ۺ :۴۲۷/۹۵۵۔
[9] ثواب الاعمال ،شیخ صدوق:۱۹۷۔منشورات الرضی ۔قم ،علل الشرائع ،شیخ صدوق:۳۰۹/۳،امالی الصدوق :۶۳۲/۸۴۵۔
[10] اصول کافی /الکلینی۳:۲۳۲/۱و۲۳۶/۷و ۲۳۸/۱۰و ۲۳۹/۱۲،الاعتقاد ات ،شیخ صدوق:۵۸ ،تصحیح الاعتقاد / المفید :۹۹۔۱۰۰،شرح الموقف / الجرجانی ۸:۳۱۷۔۳۲۰۔
[11] امالی شیخ صدوق:۳۷۰/۴۶۴۔
[12] کشف المراد / العلامہ الحلی :۴۵۲،المسائل السرویہ /المفید :۶۲۔مسالة (۵)،الاربعین ۳ ،البہائی: ۲۸۳ و۳۸۷،حق الیقین ۳ عبد اللہ شبر ۲:۶۸۔
[13] سورہٴ غافر آیت ۴۵۔۴۶۔
[14] تفسیر المیزان / علامہ طباطبائی ۱۷:۳۳۵۔
[15] مجمع البیان ۳ الطبرسی ۸:۸۱۸۔
[16] سورہٴ طہ آیت۱۲۴۔
[17] ا ربعین ، شیخ بہائی :۴۸۸۔
[18] شرح ابن ابی الحدید ۶:۶۹۔داراحیاء الکتب العربیہ ۔مصر ،امالی شیخ طوسی ۺ :۲۸/۳۱۔
[19] اصول کافی /الکلینی ۳:۲۳۱۔۲۳۹،۲۴۴۔۲۴۵و۲۵۳/۱۰،المحاسن / البرقی :۱۷۴۔۱۷۸۔ دارالکتب الاسلامیہ ۔قم ،بحارالانوار / مجلسی ۶:۲۰۲باب(۸)،سنن النسائی ۴:۹۷۔۱۰۸۔کتاب الجنائز ۔ دارالکتاب العربی ۔بیروت ،کنزل العمال/ المتقی الہندی ۱۵:۶۳۸و غیرھا۔
[20] سنن الترمذی ۴:۶۴۰/۴۶۰۔کتاب صفة القیامة ۔داراحیاء التراث العربی ۔بیروت ،حیاء علوم الدین/ الغزالی ۵:۳۱۶۔
[21] امالی شیخ طوسی ۺ :۲۸/۳۱۔
[22] سورہٴ مومنون آیت۱۰۰۔
[23] الخصال ،شیخ صدوق:۱۲۰/۱۰۸۔
[24] درالمنثور ۳ ا،سیوطی ،ج۵،ص۲۸۔
[25] ا صول کافی ،شیخ کلینی،ج ۳ص۲۳۴/۳۔
[26] ا صول کافی /الکلینی ۳:۲۳۹/۱۲۔
[27] اربعین ،شیخ بہائی :۴۹۲۔
[28] اوائل المقالات ،شیخ مفید :۷۷،تصحیح الاعتقاد ،شیخ مفید۸۸۔۸۹،المسائل السرویہ،شیخ مفید: ۶۳۔ ۶۴۔ المسالة (۵)،الاربعین ، شیخ بہائی :۵۰۴۔
[29] تہذیب ، شیخ طوسی ۺ،ج ۱،ص۴۶۶/۱۷۲۔
[30] تہذیب ، شیخ طوسی ۺ ۱:۴۶۶/۱۷۱،الکافی /الکلینی ۳:۳۴۵/۶۔
[31] اصول کافی /الکلینی ۳:۲۵۵/۱
[32] اصول کافی /الکلینی ۳:۲۴۴/۳و۳۴۵/۷۔
[33] دائرة معارف القرن العشرین /وجدی ۴:۳۷۵۔
[34] حق الیقین /عبد اللہ شبر ۲:۵۰،الاربعین / البہائی :۵۰۵،بحارالانوار ۶:۲۷۱و۲۷۸۔
[35] اصول کافی /الکلینی ۳:۲۴۴/۴۔
[36] ا صول کافی /الکلینی ۳:۲۴۵/۲۔
[37] الاعتقادات ،شیخ صدوق:۷۹۔
[38] سورہٴ آل عمران آیت۱۳۳۔
[39] سورہٴ بقرة آیت۲۴۔
[40] سورہٴ بقرة آیت۳۵۔
[41] سورہٴ نجم آیت۱۵۔
[42] سورہٴ قصص آیت۸۸۔
[43] سورہٴ رعد آیت۳۵۔
[44] کشف المراد / العلامہ الحلی :۴۵۳،رجوع کریں: شرح المواقف / الجرجانی ۸:۳۰۱۔۳۰۳۔

شراب ,جوا, زن و شوہر ,نکاح,اور مشرک

سورة البَقَرَة

(اے پیغمبر) لوگ تم سے شراب اور جوئے کا حکم دریافت کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ ان میں نقصان بڑے ہیں اور لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں مگر ان کے نقصان فائدوں سے کہیں زیادہ ہیں اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ (خدا کی راہ میں) کون سا مال خرچ کریں۔ کہہ دو کہ جو ضرورت سے زیادہ ہو۔ اس طرح خدا تمہارے لئے اپنے احکام کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سوچو (۲۱۹) (یعنی) دنیا اور آخرت (کی باتوں) میں (غور کرو)۔ اور تم سے یتیموں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہہ دو کہ ان کی (حالت کی) اصلاح بہت اچھا کام ہے۔ اور اگر تم ان سے مل جل کر رہنا (یعنی خرچ اکھٹا رکھنا) چاہو تو وہ تمہارے بھائی ہیں اور خدا خوب جانتا ہے کہ خرابی کرنے والا کون ہے اور اصلاح کرنے والا کون۔ اور اگر خدا چاہتا تو تم کو تکلیف میں ڈال دیتا۔بےشک خدا غالب (اور) حکمت والا ہے (۲۲۰)اور (مومنو) مشرک عورتوں سے جب تک کہ ایمان نہ لائیں نکاح نہ کرنا۔ کیونکہ مشرک عورت خواہ تم کو کیسی ہی بھلی لگے اس سے مومن لونڈی بہتر ہے۔ اور (اسی طرح) مشرک مرد جب تک ایمان نہ لائیں مومن عورتوں کو ان کو زوجیت میں نہ دینا کیونکہ مشرک (مرد) سے خواہ وہ تم کو کیسا ہی بھلا لگے مومن غلام بہتر ہے۔ یہ (مشرک لوگوں کو) دوزخ کی طرف بلاتے ہیں۔ اور خدا اپنی مہربانی سے بہشت اور بخشش کی طرف بلاتا ہے۔ اور اپنے حکم لوگوں سے کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ نصیحت حاصل کریں (۲۲۱) اور تم سے حیض کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ وہ تو نجاست ہے۔ سو ایام حیض میں عورتوں سے کنارہ کش رہو۔ اور جب تک پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرو۔ ہاں جب پاک ہوجائیں تو جس طریق سے خدا نے ارشاد فرمایا ہے ان کے پاس جاؤ۔ کچھ شک نہیں کہ خدا توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے (۲۲۲) تمہاری عورتیں تمہارای کھیتی ہیں تو اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جاؤ۔ اور اپنے لئے (نیک عمل) آگے بھیجو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ (ایک دن) تمہیں اس کے روبرو حاضر ہونا ہے اور (اے پیغمبر) ایمان والوں کو بشارت سنا دو (۲۲۳) اور خدا (کے نام کو) اس بات کا حیلہ نہ بنانا کہ (اس کی) قسمیں کھا کھا کر سلوک کرنے اورپرہیزگاری کرنے اور لوگوں میں صلح و سازگاری کرانے سے رک جاؤ۔ اور خدا سب کچھ سنتا اور جانتا ہے (۲۲۴) خدا تمہاری لغو قسموں پر تم سے مواخذہ نہ کرے گا۔ لیکن جو قسمیں تم قصد دلی سے کھاؤ گے ان پر مواخذہ کرے گا۔ اور خدا بخشنے والا بردبار ہے (۲۲۵) جو لوگ اپنی عورتوں کے پاس جانے سے قسم کھالیں ان کو چار مہینے تک انتظار کرنا چاہیئے۔ اگر (اس عرصے میں قسم سے) رجوع کرلیں تو خدا بخشنے والا مہربان ہے (۲۲۶) اور اگر طلاق کا ارادہ کرلیں تو بھی خدا سنتا (اور) جانتا ہے (۲۲۷) اور طلاق والی عورتیں تین حیض تک اپنی تئیں روکے رہیں۔ اور اگر وہ خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتی ہیں تو ان کا جائز نہیں کہ خدا نے جو کچھ ان کے شکم میں پیدا کیا ہے اس کو چھپائیں۔ اور ان کے خاوند اگر پھر موافقت چاہیں تو اس (مدت) میں وہ ان کو اپنی زوجیت میں لے لینے کے زیادہ حقدار ہیں۔ اور عورتوں کا حق (مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسے دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر ہے۔ البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے۔ اور خدا غالب (اور) صاحب حکمت ہے (۲۲۸) طلاق (صرف) دوبار ہے (یعنی جب دو دفعہ طلاق دے دی جائے تو) پھر (عورتوں کو) یا تو بطریق شائستہ (نکاح میں) رہنے دینا یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا۔ اور یہ جائز نہیں کہ جو مہر تم ان کو دے چکے ہو اس میں سے کچھ واپس لے لو۔ ہاں اگر زن و شوہر کو خوف ہو کہ وہ خدا کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو اگر عورت (خاوند کے ہاتھ سے) رہائی پانے کے بدلے میں کچھ دے ڈالے تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں۔ یہ خدا کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں ان سے باہر نہ نکلنا۔ اور جو لوگ خدا کی حدوں سے باہر نکل جائیں گے وہ گنہگار ہوں گے (۲۲۹) پھر اگر شوہر (دو طلاقوں کے بعد تیسری) طلاق عورت کو دے دے تو اس کے بعد جب تک عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے اس (پہلے شوہر) پر حلال نہ ہوگی۔ ہاں اگر دوسرا خاوند بھی طلاق دے دے اورعورت اور پہلا خاوند پھر ایک دوسرے کی طرف رجوع کرلیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ دونوں یقین کریں کہ خدا کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے اور یہ خدا کی حدیں ہیں ان کو وہ ان لوگوں کے لئے بیان فرماتا ہے جو دانش رکھتے ہیں (۲۳۰) اور جب تم عورتوں کو (دو دفعہ) طلاق دے چکو اور ان کی عدت پوری ہوجائے تو انہیں یا تو حسن سلوک سے نکاح میں رہنے دو یا بطریق شائستہ رخصت کردو اور اس نیت سے ان کو نکاح میں نہ رہنے دینا چاہئے کہ انہیں تکلیف دو اور ان پر زیادتی کرو۔ اور جو ایسا کرے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا اور خدا کے احکام کو ہنسی (اور کھیل) نہ بناؤ اور خدا نے تم کو جو نعمتیں بخشی ہیں اور تم پر جو کتاب اور دانائی کی باتیں نازل کی ہیں جن سے وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے ان کو یاد کرو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھوکہ خدا ہر چیز سے واقف ہے (۲۳۱) اور جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور ان کی عدت پوری ہوجائے تو ان کو دوسرے شوہروں کے ساتھ جب وہ آپس میں جائز طور پر راضی ہوجائیں نکاح کرنے سے مت روکو۔ اس (حکم) سے اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو تم میں خدا اور روز آخرت پر یقین رکھتا ہے۔ یہ تمہارے لئے نہایت خوب اور بہت پاکیزگی کی بات ہے اور خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے (۲۳۲) اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں یہ (حکم) اس شخص کے لئے ہے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے۔ اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور کپڑا دستور کے مطابق باپ کے ذمے ہوگا۔ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جاتی (تو یاد رکھو کہ) نہ تو ماں کو اس کے بچے کے سبب نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کی وجہ سے نقصان پہنچایا جائے اور اسی طرح (نان نفقہ) بچے کے وارث کے ذمے ہے۔ اور اگر دونوں (یعنی ماں باپ) آپس کی رضامندی اور صلاح سے بچے کا دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں۔ اور اگر تم اپنی اولاد کو دودھ پلوانا چاہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ تم دودھ پلانے والیوں کو دستور کے مطابق ان کا حق جو تم نے دینا کیا تھا دے دو اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس کو دیکھ رہا ہے (۲۳۳) اور جو لوگ تم میں سے مرجائیں اور عورتیں چھوڑ جائیں تو عورتیں چار مہینے دس دن اپنے آپ کو روکے رہیں۔ اور جب (یہ) عدت پوری کرچکیں اور اپنے حق میں پسندیدہ کام (یعنی نکاح) کرلیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں۔ اور خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے (۲۳۴) اور اگر تم کنائے کی باتوں میں عورتوں کو نکاح کا پیغام بھیجو یا (نکاح کی خواہش کو) اپنے دلوں میں مخفی رکھو تو تو تم پر کچھ گناہ نہیں۔ خدا کو معلوم ہے کہ تم ان سے (نکاح کا) ذکر کرو گے۔ مگر (ایام عدت میں) اس کے سوا کہ دستور کے مطابق کوئی بات کہہ دو پوشیدہ طور پر ان سے قول واقرار نہ کرنا۔ اور جب تک عدت پوری نہ ہولے نکاح کا پختہ ارادہ نہ کرنا۔ اور جان رکھو کہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے تو اس سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ خدا بخشنے والا اور حلم والا ہے (۲۳۵)اور اگر تم عورتوں کو ان کے پاس جانے یا ان کا مہر مقرر کرنے سے پہلے طلاق دے دو تو تم پر کچھ گناہ نہیں۔ ہاں ان کو دستور کے مطابق کچھ خرچ ضرور دو (یعنی) مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق دے اور تنگدست اپنی حیثیت کے مطابق۔ نیک لوگوں پر یہ ایک طرح کا حق ہے (۲۳۶) اور اگر تم عورتوں کو ان کے پاس جانے سے پہلے طلاق دے دو لیکن مہر مقرر کرچکے ہو تو آدھا مہر دینا ہوگا۔ ہاں اگر عورتیں مہر بخش دیں یا مرد جن کے ہاتھ میں عقد نکاح ہے (اپنا حق) چھوڑ دیں۔ (اور پورا مہر دے دیں تو ان کو اختیار ہے) اور اگر تم مرد لوگ ہ اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیزگاری کی بات ہے۔ اور آپس میں بھلائی کرنے کو فراموش نہ کرنا۔ کچھ شک نہیں کہ خدا تمہارے سب کاموں کو دیکھ رہا ہے (۲۳۷) (مسلمانو) سب نمازیں خصوصاً بیچ کی نماز (یعنی نماز عصر) پورے التزام کے ساتھ ادا کرتے رہو۔ اور خدا کے آگے ادب سے کھڑے رہا کرو (۲۳۸) اگر تم خوف کی حالت میں ہو تو پیادے یا سوار (جس حال میں ہو نماز پڑھ لو) پھر جب امن (واطمینان) ہوجائے تو جس طریق سے خدا نے تم کو سکھایا ہے جو تم پہلے نہیں جانتے تھے خدا کو یاد کرو (۲۳۹) اور جو لوگ تم میں سے مرجائیں اور عورتیں چھوڑ جائیں وہ اپنی عورتوں کے حق میں وصیت کرجائیں کہ ان کو ایک سال تک خرچ دیا جائے اور گھر سے نہ نکالی جائیں۔ ہاں اگر وہ خود گھر سے نکل جائیں اور اپنے حق میں پسندیدہ کام (یعنی نکاح) کرلیں تو تم پر کچھ گناہ نہیں۔ اور خدا زبردست حکمت والا ہے (۲۴۰) اور مطلقہ عورتوں کو بھی دستور کے مطابق نان و نفقہ دینا چاہیئے پرہیزگاروں پر (یہ بھی) حق ہے (۲۴۱) اسی طرح خدا اپنے احکام تمہارے لئے بیان فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو (۲۴۲) بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو (شمار میں) ہزاروں ہی تھے اور موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکل بھاگے تھے۔ تو خدا نے ان کو حکم دیا کہ مرجاؤ۔ پھر ان کو زندہ بھی کردیا۔ کچھ شک نہیں کہ خدا لوگوں پر مہربانی رکھتا ہے۔ لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے (۲۴۳) اور (مسلمانو) خدا کی راہ میں جہاد کرو اور جان رکھو کہ خدا (سب کچھ) جانتا ہے (۲۴۴) کوئی ہے کہ خدا کو قرض حسنہ دے کہ وہ اس کے بدلے اس کو کئی حصے زیادہ دے گا۔ اور خدا ہی روزی کو تنگ کرتا اور (وہی اسے) کشادہ کرتا ہے۔ اور تم اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے (۲۴۵) بھلا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہیں دیکھا جس نے موسیٰ کے بعد اپنے پیغمبر سے کہا کہ آپ ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر کردیں تاکہ ہم خدا کی راہ میں جہاد کریں۔ پیغمبر نے کہا کہ اگر تم کو جہاد کا حکم دیا جائے تو عجب نہیں کہ لڑنے سے پہلو تہی کرو۔ وہ کہنے لگے کہ ہم راہ خدا میں کیوں نہ لڑیں گے جب کہ ہم وطن سے (خارج) اور بال بچوں سے جدا کردیئے گئے۔ لیکن جب ان کو جہاد کا حکم دیا گیا تو چند اشخاص کے سوا سب پھر گئے۔ اور خدا ظالموں سے خوب واقف ہے (۲۴۶) اور پیغمبر نے ان سے (یہ بھی) کہا کہ خدا نے تم پر طالوت کو بادشاہ مقرر فرمایا ہے۔ وہ بولے کہ اسے ہم پر بادشاہی کا حق کیونکر ہوسکتا ہےبادشاہی کے مستحق تو ہم ہیں اور اس کے پاس تو بہت سی دولت بھی نہیں۔ پیغمبر نے کہا کہ خدا نےاس کو تم پر فضیلت دی ہے اور (بادشاہی کے لئے) منتخب فرمایا ہے اس نے اسے علم بھی بہت سا بخشا ہے اور تن و توش بھی (بڑا عطا کیا ہے) اور خدا (کو اختیار ہے) جسے چاہے بادشاہی بخشے۔ وہ بڑا کشائش والا اور دانا ہے (۲۴۷) اور پیغمبر نے ان سے کہا کہ ان کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس ایک صندوق آئے گا جس کو فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تسلی (بخشنے والی چیز) ہوگی اور کچھ اور چیزیں بھی ہوں گی جو موسیٰ اور ہارون چھوڑ گئے تھے۔ اگر تم ایمان رکھتے ہو تو یہ تمہارے لئے ایک بڑی نشانی ہے (۲۴۸) غرض جب طالوت فوجیں لے کر روانہ ہوا تو اس نے (ان سے) کہا کہ خدا ایک نہر سے تمہاری آزمائش کرنے والا ہے۔ جو شخص اس میں سے پانی پی لے گا (اس کی نسبت تصور کیا جائے گا کہ) وہ میرا نہیں۔ اور جو نہ پئے گا وہ (سمجھا جائے گا کہ) میرا ہے۔ ہاں اگر کوئی ہاتھ سے چلو بھر پانی پی لے (تو خیر۔ جب وہ لوگ نہر پر پہنچے) تو چند شخصوں کے سوا سب نے پانی پی لیا۔ پھر جب طالوت اور مومن لوگ جو اس کے ساتھ تھے نہر کے پار ہوگئے۔ تو کہنے لگے کہ آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکر سے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں۔ جو لوگ یقین رکھتے تھے کہ ان کو خدا کے روبرو حاضر ہونا ہے وہ کہنے لگے کہ بسااوقات تھوڑی سی جماعت نے خدا کے حکم سے بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ہے اور خدا استقلال رکھنے والوں کے ساتھ ہے (۲۴۹) اور جب وہ لوگ جالوت اور اس کے لشکر کے مقابل آئے تو (خدا سے) دعا کی کہ اے پروردگار ہم پر صبر کے دہانے کھول دے اور ہمیں (لڑائی میں) ثابت قدم رکھ اور (لشکر) کفار پر فتحیاب کر (۲۵۰) تو طالوت کی فوج نے خدا کے حکم سے ان کو ہزیمت دی۔ اور داؤد نے جالوت کو قتل کر ڈالا۔ اور خدا نے اس کو بادشاہی اور دانائی بخشی اور جو کچھ چاہا سکھایا۔ اور خدا لوگوں کو ایک دوسرے (پر چڑھائی اور حملہ کرنے) سے ہٹاتا نہ رہتا تو ملک تباہ ہوجاتا لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہربان ہے (۲۵۱) یہ خدا کی آیتیں ہیں جو ہم تم کو سچائی کے ساتھ پڑھ کر سناتے ہیں (اور اے محمدﷺ) تم بلاشبہ پیغمبروں میں سے ہو (۲۵۲) یہ پیغمبر (جو ہم وقتاً فوقتاً بھیجتے رہیں ہیں) ان میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ بعض ایسے ہیں جن سے خدا نے گفتگو فرمائی اور بعض کے (دوسرے امور میں) مرتبے بلند کئے۔ اور عیسیٰ بن مریم کو ہم نے کھلی ہوئی نشانیاں عطا کیں اور روح القدس سے ان کو مدد دی۔ اور اگر خداچاہتا تو ان سے پچھلے لوگ اپنے پاس کھلی نشانیاں آنے کے بعد آپس میں نہ لڑتے لیکن انہوں نے اختلاف کیا تو ان میں سے بعض تو ایمان لے آئے اور بعض کافر ہی رہے۔ اور اگر خدا چاہتا تو یہ لوگ باہم جنگ و قتال نہ کرتے۔ لیکن خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے (۲۵۳) اے ایمان والو جو (مال) ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے اس دن کے آنے سے پہلے پہلے خرچ کرلو جس میں نہ (اعمال کا) سودا ہو اور نہ دوستی اور سفارش ہو سکے اور کفر کرنے والے لوگ ظالم ہیں (۲۵۴) خدا (وہ معبود برحق ہے کہ) اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں زندہ ہمیشہ رہنے والا اسے نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہیں سب اسی کا ہے کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس سے (کسی کی) سفارش کر سکے جو کچھ لوگوں کے روبرو ہو رہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے اسے سب معلوم ہے اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز پر دسترس حاصل نہیں کر سکتے ہاں جس قدر وہ چاہتا ہے (اسی قدر معلوم کرا دیتا ہے) اس کی بادشاہی (اور علم) آسمان اور زمین سب پر حاوی ہے اور اسے ان کی حفاظت کچھ بھی دشوار نہیں وہ بڑا عالی رتبہ اور جلیل القدر ہے (۲۵۵) دین (اسلام) میں زبردستی نہیں ہے ہدایت (صاف طور پر ظاہر اور) گمراہی سے الگ ہو چکی ہے تو جو شخص بتوں سے اعتقاد نہ رکھے اور خدا پر ایمان لائے اس نے ایسی مضبوط رسی ہاتھ میں پکڑ لی ہے جو کبھی ٹوٹنے والی نہیں اور خدا (سب کچھ) سنتا اور (سب کچھ) جانتا ہے (۲۵۶) جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کا دوست خدا ہے کہ اُن کو اندھیرے سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے اور جو کافر ہیں ان کے دوست شیطان ہیں کہ ان کو روشنی سے نکال کر اندھیرے میں لے جاتے ہیں یہی لوگ اہل دوزخ ہیں کہ اس میں ہمیشہ رہیں گے (۲۵۷) بھلا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو اس (غرور کے) سبب سے کہ خدا نے اس کو سلطنت بخشی تھی ابراہیم سے پروردگار کے بارے میں جھگڑنے لگا۔ جب ابراہیم نے کہا میرا پروردگار تو وہ ہے جو جلاتا اور مارتا ہے۔ وہ بولا کہ جلا اور مار تو میں بھی سکتا ہوں۔ ابراہیم نے کہا کہ خدا تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے آپ اسے مغرب سے نکال دیجیئے (یہ سن کر) کافر حیران رہ گیا اور خدا بےانصافوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا (۲۵۸)یا اسی طرح اس شخص کو (نہیں دیکھا) جسے ایک گاؤں میں جو اپنی چھتوں پر گرا پڑا تھا اتفاق گزر ہوا۔ تو اس نے کہا کہ خدا اس (کے باشندوں) کو مرنے کے بعد کیونکر زندہ کرے گا۔ تو خدا نے اس کی روح قبض کرلی (اور) سو برس تک (اس کو مردہ رکھا) پھر اس کو جلا اٹھایا اور پوچھا تم کتنا عرصہ (مرے)رہے ہو اس نے جواب دیا کہ ایک دن یا اس سے بھی کم۔ خدا نے فرمایا (نہیں) بلکہ سو برس (مرے) رہے ہو۔ اور اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو کہ (اتنی مدت میں مطلق) سڑی بسی نہیں اور اپنے گدھے کو بھی دیکھو (جو مرا پڑا ہے) غرض (ان باتوں سے) یہ ہے کہ ہم تم کو لوگوں کے لئے (اپنی قدرت کی) نشانی بنائیں اور (ہاں گدھے) کی ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم ان کو کیونکر جوڑے دیتے اور ان پر (کس طرح) گوشت پوست چڑھا دیتے ہیں۔ جب یہ واقعات اس کے مشاہدے میں آئے تو بول اٹھا کہ میں یقین کرتا ہوں کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے (۲۵۹) اور جب ابراہیم نے (خدا سے) کہا کہ اے پروردگار مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کیونکر زندہ کرے گا۔ خدا نے فرمایا کیا تم نے (اس بات کو) باور نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ لیکن (میں دیکھنا) اس لئے (چاہتا ہوں) کہ میرا دل اطمینان کامل حاصل کرلے۔ خدا نے فرمایا کہ چار جانور پکڑوا کر اپنے پاس منگا لو (اور ٹکڑے ٹکڑے کرادو) پھر ان کا ایک ٹکڑا ہر ایک پہاڑ پر رکھوا دو پھر ان کو بلاؤ تو وہ تمہارے پاس دوڑتے چلے آئیں گے۔ اور جان رکھو کہ خدا غالب اور صاحب حکمت ہے۔ (۲۶۰) جو لوگ اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان (کے مال) کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیں اگیں اور ہر ایک بال میں سو سو دانے ہوں اور خدا جس (کے مال) کو چاہتا ہے زیادہ کرتا ہے۔ وہ بڑی کشائش والا اور سب کچھ جاننے والا ہے (۲۶۱) جو لوگ اپنا مال خدا کے رستے میں صرف کرتے ہیں پھر اس کے بعد نہ اس خرچ کا (کسی پر) احسان رکھتے ہیں اور نہ (کسی کو) تکلیف دیتے ہیں۔ ان کا صلہ ان کے پروردگار کے پاس (تیار) ہے۔ اور (قیامت کے روز) نہ ان کو کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے (۲۶۲) جس خیرات دینے کے بعد (لینے والے کو) ایذا دی جائے اس سے تو نرم بات کہہ دینی اور (اس کی بے ادبی سے) درگزر کرنا بہتر ہے اور خدا بےپروا اور بردبار ہے (۲۶۳)مومنو! اپنے صدقات (وخیرات)احسان رکھنے اور ایذا دینے سے اس شخص کی طرح برباد نہ کردینا۔ جو لوگوں کو دکھاوے کے لئے مال خرچ کرتا ہے اور خدا اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔ تو اس (کے مال) کی مثال اس چٹان کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو اور اس پر زور کا مینہ برس کر اسے صاف کر ڈالے۔ (اسی طرح) یہ (ریاکار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے۔ اور خدا ایسے ناشکروں کو ہدایت نہیں دیا کرتا (۲۶۴) اور جو لوگ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے خلوص نیت سے اپنا مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایک باغ کی سی ہے جو اونچی جگہ پر واقع ہو(جب) اس پر مینہ پڑے تو دگنا پھل لائے۔ اور اگر مینہ نہ بھی پڑے تو خیر پھوار ہی سہی اور خدا تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے (۲۶۵) بھلا تم میں کوئی یہ چاہتا ہے کہ اس کا کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہو جس میں نہریں بہہ رہی ہوں اور اس میں اس کے لئے ہر قسم کے میوے موجود ہوں اور اسے بڑھاپا آپکڑے اور اس کے ننھے ننھے بچے بھی ہوں۔ تو (ناگہاں) اس باغ پر آگ کا بھرا ہوا بگولا چلے اور وہ جل کر (راکھ کا ڈھیر ہو) جائے۔ اس طرح خدا تم سے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سوچو (اور سمجھو) (۲۶۶) مومنو! جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کماتے ہوں اور جو چیزیں ہم تمہارے لئے زمین سےنکالتے ہیں ان میں سے (راہ خدا میں) خرچ کرو۔ اور بری اور ناپاک چیزیں دینے کا قصد نہ کرنا کہ (اگر وہ چیزیں تمہیں دی جائیں تو) بجز اس کے کہ (لیتے وقت) آنکھیں بند کرلو ان کو کبھی نہ لو۔ اور جان رکھو کہ خدا بےپروا (اور) قابل ستائش ہے (۲۶۷) (اور دیکھنا) شیطان (کا کہنا نہ ماننا وہ) تمہیں تنگ دستی کا خوف دلاتا اور بےحیائی کے کام کر نے کو کہتا ہے۔ اور خدا تم سے اپنی بخشش اور رحمت کا وعدہ کرتا ہے۔ اور خدا بڑی کشائش والا (اور) سب کچھ جاننے والا ہے (۲۶۸) وہ جس کو چاہتا ہے دانائی بخشتا ہے۔ اور جس کو دانائی ملی بےشک اس کو بڑی نعمت ملی۔ اور نصیحت تو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں (۲۶۹) اور تم (خدا کی راہ میں) جس طرح کا خرچ کرو یا کوئی نذر مانو خدا اس کو جانتا ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں (۲۷۰) اگر تم خیرات ظاہر دو تو وہ بھی خوب ہے اور اگر پوشیدہ دو اور دو بھی اہل حاجت کو تو وہ خوب تر ہے اور (اس طرح کا دینا) تمہارے گناہوں کو بھی دور کردے گا۔ اور خدا کو تمہارے سب کاموں کی خبر ہے (۲۷۱) (اے محمدﷺ) تم ان لوگوں کی ہدایت کے ذمہ دار نہیں ہو بلکہ خدا ہی جس کو چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے۔ اور (مومنو) تم جو مال خرچ کرو گے تو اس کا فائدہ تمہیں کو ہے اور تم جو خرچ کرو گے خدا کی خوشنودی کے لئے کرو گے۔ اور جو مال تم خرچ کرو گے وہ تمہیں پورا پورا دے دیا جائے گا اور تمہارا کچھ نقصان نہیں کیا جائے گا، (۲۷۲) (اور ہاں تم جو خرچ کرو گے تو) ان حاجتمندوں کے لئے جو خدا کی راہ میں رکے بیٹھے ہیں اور ملک میں کسی طرف جانے کی طاقت نہیں رکھتے (اور مانگنے سے عار رکھتے ہیں) یہاں تک کہ نہ مانگنے کی وجہ سے ناواقف شخص ان کو غنی خیال کرتا ہے اور تم قیافے سے ان کو صاف پہچان لو (کہ حاجتمند ہیں اور شرم کے سبب) لوگوں سے (منہ پھوڑ کر اور) لپٹ کر نہیں مانگ سکتے اور تم جو مال خرچ کرو گے کچھ شک نہیں کہ خدا اس کو جانتا ہے (۲۷۳) جو لوگ اپنا مال رات اور دن اور پوشیدہ اور ظاہر (راہ خدا میں) خرچ کرتے رہتے ہیں ان کا صلہ پروردگار کے پاس ہے اور ان کو (قیامت کے دن) نہ کسی طرح کا خوف ہوگا اور نہ غم (۲۷۴) جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قبروں سے) اس طرح (حواس باختہ) اٹھیں گے جیسے کسی کو جن نے لپٹ کر دیوانہ بنا دیا ہو یہ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ سودا بیچنا بھی تو (نفع کے لحاظ سے) ویسا ہی ہے جیسے سود (لینا) حالانکہ سودے کو خدا نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔ تو جس شخص کے پاس خدا کی نصیحت پہنچی اور وہ (سود لینے سے) باز آگیا تو جو پہلے ہوچکا وہ اس کا۔ اور (قیامت میں) اس کا معاملہ خدا کے سپرد اور جو پھر لینے لگا تو ایسے لوگ دوزخی ہیں کہ ہمیشہ دوزخ میں (جلتے) رہیں گے (۲۷۵) خدا سود کو نابود (یعنی بےبرکت) کرتا اور خیرات (کی برکت) کو بڑھاتا ہے اور خدا کسی ناشکرے گنہگار کو دوست نہیں رکھتا (۲۷۶) جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے اور نماز پڑھتے اور زکوٰة دیتے رہے ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا اور (قیامت کے دن) ان کو نہ کچھ خوف ہوا اور نہ وہ غمناک ہوں گے (۲۷۷) مومنو! خدا سے ڈرو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو جتنا سود باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو (۲۷۸) اگر ایسا نہ کرو گے تو خبردار ہوجاؤ (کہ تم) خدا اور رسول سے جنگ کرنے کے لئے (تیار ہوتے ہو) اور اگر توبہ کرلو گے (اور سود چھوڑ دو گے) تو تم کو اپنی اصل رقم لینے کا حق ہے جس میں نہ اوروں کا نقصان اور تمہارا نقصان (۲۷۹) اور اگر قرض لینے والا تنگ دست ہو تو (اسے) کشائش (کے حاصل ہونے) تک مہلت (دو) اور اگر (زر قرض) بخش ہی دو توتمہارے لئے زیادہ اچھا ہے بشرطیکہ سمجھو (۲۸۰) اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا۔ اور کسی کا کچھ نقصان نہ ہوگا (۲۸۱)مومنو! جب تم آپس میں کسی میعاد معین کے لئے قرض کا معاملہ کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو اور لکھنے والا تم میں (کسی کا نقصان نہ کرے بلکہ) انصاف سے لکھے نیز لکھنے والا جیسا اسے خدا نے سکھایا ہے لکھنے سے انکار بھی نہ کرے اور دستاویز لکھ دے۔ اور جو شخص قرض لے وہی (دستاویز کا) مضمون بول کر لکھوائے اور خدا سے کہ اس کا مالک ہے خوف کرے اور زر قرض میں سے کچھ کم نہ لکھوائے۔ اور اگر قرض لینے والا بےعقل یا ضعیف ہو یا مضمون لکھوانے کی قابلیت نہ رکھتا ہو تو جو اس کا ولی ہو وہ انصاف کے ساتھ مضمون لکھوائے۔ اور اپنے میں سے دو مردوں کو (ایسے معاملے کے) گواہ کرلیا کرو۔ اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جن کو تم گواہ پسند کرو (کافی ہیں) کہ اگر ان میں سے ایک بھول جائے گی تو دوسری اسے یاد دلادے گی۔ اور جب گواہ (گواہی کے لئے طلب کئے جائیں تو انکار نہ کریں۔ اور قرض تھوڑا ہو یا بہت اس (کی دستاویز) کے لکھنے میں کاہلی نہ کرنا۔ یہ بات خدا کے نزدیک نہایت قرین انصاف ہے اور شہادت کے لئے بھی یہ بہت درست طریقہ ہے۔ اس سے تمہیں کسی طرح کا شک وہ شبہ بھی نہیں پڑے گا۔ ہاں اگر سودا دست بدست ہو جو تم آپس میں لیتے دیتے ہو تو اگر (ایسے معاملے کی) دستاویز نہ لکھوتو تم پر کچھ گناہ نہیں۔ اور جب خرید وفروخت کیا کرو تو بھی گواہ کرلیا کرو۔ اور کاتب دستاویز اور گواہ (معاملہ کرنے والوں کا) کسی طرح نقصان نہ کریں۔ اگر تم (لوگ) ایسا کرو تو یہ تمہارے لئے گناہ کی بات ہے۔ اور خدا سے ڈرو اور (دیکھو کہ) وہ تم کو (کیسی مفید باتیں) سکھاتا ہے اور خدا ہر چیز سے واقف ہے (۲۸۲) اور اگر تم سفر پر ہواور (دستاویز) لکھنے والا مل نہ سکے تو (کوئی چیز) رہن یا قبضہ رکھ کر (قرض لے لو) اور اگر کوئی کسی کو امین سمجھے (یعنی رہن کے بغیر قرض دیدے) تو امانتدار کو چاہیئے کہ صاحب امانت کی امانت ادا کردے اور خدا سے جو اس کا پروردگار ہے ڈرے۔اور (دیکھنا) شہادت کو مت چھپانا۔ جو اس کو چھپائے گا وہ دل کا گنہگار ہوگا۔ اور خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے (۲۸۳) جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب خدا ہی کا ہے۔ تم اپنے دلوں کی بات کو ظاہر کرو گے تو یا چھپاؤ گے تو خدا تم سے اس کا حساب لے گا پھر وہ جسے چاہے مغفرت کرے اور جسے چاہے عذاب دے۔ اور خدا ہر چیز پر قادر ہے (۲۸۴) رسول (خدا) اس کتاب پر جو ان کے پروردگار کی طرف سے ان پر نازل ہوئی ایمان رکھتے ہیں اور مومن بھی۔ سب خدا پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں (اورکہتے ہیں کہ) ہم اس کے پیغمبروں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور وہ (خدا سے) عرض کرتے ہیں کہ ہم نے (تیرا حکم) سنا اور قبول کیا۔ اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے (۲۸۵) خدا کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ اچھے کام کرے گا تو اس کو ان کا فائدہ ملے گا برے کرے گا تو اسے ان کا نقصان پہنچے گا۔ اے پروردگار اگر ہم سے بھول یا چوک ہوگئی ہو تو ہم سے مؤاخذہ نہ کیجیو۔ اے پروردگار ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈالیو جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔ اے پروردگار جتنا بوجھ اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں اتنا ہمارے سر پر نہ رکھیو۔ اور (اے پروردگار) ہمارے گناہوں سے درگزر کر اور ہمیں بخش دے۔ اور ہم پر رحم فرما۔ تو ہی ہمارا مالک ہے اور ہم کو کافروں پر غالب فرما (۲۸۶)

اولیا اور انبیاٴ علیہ السلام کی نصیحتیں.

  • کم بولنا حکمت ہے ، کم کھانا صحت ، کم سونا عبادت ، اور عوام سے کم ملنا عافیت ہے ۔.حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہُ. ،
  • بےکاربولنے سے منہ بند رکھنا بھتر ہے۔شيخ سعدي شيرازي
  • جہاں تک ہو سکے لوگوں سے دور رہ، تاکہ تیرا دل سلامت اور نفس پاکیزا رہے.  حضرت لقمان علیہ السلام.
  • زیادہ سنو اور کم بولو۔ .  حضرت لقمان علیہ السلام.

  • کثیرا فہم اور کم سخن بنا رہ، اور حالت خاموشی میں بے  فکر مت رہ۔ .  حضرت لقمان علیہ السلام.
  • دوسروں کے عیب پوشیدہ رکھ  تاکہ خدا تیرے عیب بھی پوشیدہرکھے. حضرت خواجہ سراالدین۔
  • جو شخص خاموش رہتا ہے، وہ بہت دانا ہے، کیوں کہ کثرت کلام سے کچھ نہ کچھ گناہ سر ذد ہو جاتے ہیں۔ حضرت سلیمان
  • زبان سے بری بات نہ کرو، کان سے برے الفاظ نہ سنو،  آنکھوں سے بری چیزیں نہیں دیکھو,  ہاتھ سے بری چیزیں نہیں چھوٴو, پیر سے بری جگہ نہیں جاو, ور دل سے اللہ کو یاد کرو۔ حضرت ابو بکر
  • خاموشی نعمت ہے، درگزر جہاد ہے،غریب پروری زاراہ ہے۔ . حضرت خواجہ محمد اسد ہاشمی۔
  • جب راستہ چلو ،تو دائیں بائیں نہیں جھانکا کرو۔  نظر ہمیشہ نیچےاور  سامنے رکھو۔۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمت اللہ علیہ
  • بازاوں میں زیادہ نہ پھرو، نہ چلتےچلتے راستے میں کوئی چیز کھاو۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمت اللہ علیہ۔
  • زبان کی حفاضت کرو،کیوں کہ یہ ایک بہرین خصلت ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہُ
  • اچھے لوگوں کی صحبت اخیار کرو، اس سے تمھارے اعمال اچھے ہو جاہیں گے۔ ابن جوزی رحمت اللہ علیہ
  • برے لوگوں کی صحبت نیک لوگوں سے بدگمانی پیدا کرتی ہے، جب کہ  نیک لوگوں کی صحبت برے لوگوں کیلیئے بھی نیک گمان پیدا کرتی ہے. حضرت  بشر حائی.

مکئی اور ایچ آئی وی وائرس میں ممکنہ تعلق

ایک نئی تحقیق میں آلودہ مکئی اور افریقہ کے صحرائے اعظم کے زیریں علاقے میں ایچ آئی وی وائرس پھیلنے کے درمیان ممکنہ تعلق کا انکشاف ہوا ہے۔

افریقہ میں مکئی کاشت

امریکہ میں تحقیق کے دوران سائینسدانوں کو یہ پتہ چلا کہ اس علاقے میں جو ں جوں مکئی کے استعمال میں اضافہ ہوا، اس کے ساتھ ساتھ ایچ آئی وی کے مریضوں کی تعداد میں بھی بڑھاوا دیکھا گیا۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مکئی میں ایک خاص قسم کی فنگس یعنی پھپوندی ’ فیومونیسین‘ پائی جاتی ہے جو زہریلے حشرات یا کیڑے مکوڑوں کے باعث بنتی ہے۔ اس کے کھا نے والے افراد کے جمسوں میں ایچ آئی وی وائرس سے بچنے کی قوت مدافعت میں کمی واقع ہوجاتی ہے ۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مکئی کی کوالٹی بہتر بنا کر اس علاقے میں کوئی دس لاکھ افراد کو ایچ ائی وی وائرس سے بچایا جاسکتا ہے۔ جو مجموعی تعداد میں پچاس فیصد تک کمی ہوگی ، گو کہ اس شعبے میں اور بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ تحقیق امریکہ کے ایک جریدے میں شائع ہوئی ہے جو غذائی اشیاء کی افادیت اور نقصانات پر تحقیقات شائع کرتا ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مکئی کی کوالٹی بہتر بنا کر اس علاقے میں کوئی دس لاکھ افراد کو ایچ ائی وی وائرس سے بچایا جاسکتا ہے۔ جو مجموعی تعداد میں پچاس فیصد تک کمی ہوگی ، گو کہ اس شعبے میں اور بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔

’ فیومو نیسن‘ نامی ایک نشہ آور فنگس یا پھپوندی ہے جس کے بارے میں چنداور تحقیقوں میں یہ کہا گیا ہے کہ اس سے معدے کو منہ سے ملانے والی نالی کے کینسر میں اضافہ ہوا ہے۔

CSS3 and html5

tools & resources for web professionals

the best site for understanding and creating online code of css3.

http://westciv.com/tools/gradients/

http://westciv.com/

what you can do by using cc3. http://www.everydayworks.com/css_typography/HTMLCSSrotation.html

i like it. alot. 😀

http://creatingsexystylesheets.com/

Perceiving Reality

http://www.perceivingreality.com/

He who knows not and knows not he knows not, He is a fool – Shun him.
He who knows not and knows he knows not, He is simple – Teach him.
He who knows and knows not he knows, he is asleep – Awaken him.
He who knows and knows that he knows, He is wise – Follow him.

MAY BE THIS WORLD IS ANOTHER PLANET’S HELL.

Habib Jalib’s Mainay Uss Say Yeh Kaha

میں نے اس سے یہ کہا

یہ جو دس کروڑ ہیں

جہل کا نچوڑ ہیں

ان کی فکر سو گئی

ہر امید کی کرن

ظلمتوں میں کھو گئی

یہ خبر درست ہے

ان کی موت ہوگئی

بے شعور لوگ ہیں

زندگی کا روگ ہیں

اور تیرے پاس ہے

ان کے درد کی دوا

حبیب جالب کی یہ نظم کچھ حسبِ موقع لگی ہے۔

Become a Lie Detector

How to Detect Lies
Become a Lie Detector

Introduction to Detecting Lies:
The following techniques to telling if someone is lying are often used by police, and security experts. This knowledge is also useful for managers, employers, and for anyone to use in everyday situations where telling the truth from a lie can help prevent you from being a victim of fraud/scams and other deceptions.

Warning: Sometimes Ignorance is bliss; after gaining this knowledge, you may be hurt when it is obvious that someone is lying to you.

Signs of Deception:
Body Language of Lies:
• Physical expression will be limited and stiff, with few arm and hand movements. Hand, arm and leg movement are toward their own body the liar takes up less space.

• A person who is lying to you will avoid making eye contact.

• Hands touching their face, throat & mouth. Touching or scratching the nose or behind their ear. Not likely to touch his chest/heart with an open hand.

Emotional Gestures & Contradiction
• Timing and duration of emotional gestures and emotions are off a normal pace. The display of emotion is delayed, stays longer it would naturally, then stops suddenly.

• Timing is off between emotions gestures/expressions and words. Example: Someone says “I love it!” when receiving a gift, and then smile after making that statement, rather then at the same time the statement is made.

• Gestures/expressions don’t match the verbal statement, such as frowning when saying “I love you.”

• Expressions are limited to mouth movements when someone is faking emotions (like happy, surprised, sad, awe, )instead of the whole face. For example; when someone smiles naturally their whole face is involved: jaw/cheek movement, eyes and forehead push down, etc.

Interactions and Reactions
• A guilty person gets defensive. An innocent person will often go on the offensive.

• A liar is uncomfortable facing his questioner/accuser and may turn his head or body away.

• A liar might unconsciously place objects (book, coffee cup, etc.) between themselves and you.

Verbal Context and Content
• A liar will use your words to make answer a question. When asked, “Did you eat the last cookie?” The liar answers, “No, I did not eat the last cookie.”

•A statement with a contraction is more likely to be truthful: “ I didn’t do it” instead of “I did not do it”

• Liars sometimes avoid “lying” by not making direct statements. They imply answers instead of denying something directly.

• The guilty person may speak more than natural, adding unnecessary details to convince you… they are not comfortable with silence or pauses in the conversation.

• A liar may leave out pronouns and speak in a monotonous tone. When a truthful statement is made the pronoun is emphasized as much or more than the rest of the words in a statement.

• Words may be garbled and spoken softly, and syntax and grammar may be off. In other
words, his sentences will likely be muddled rather than emphasized.

Related Books:

Never be Lied to Again

Body Language
Other signs of a lie:
• If you believe someone is lying, then change subject of a conversation quickly, a liar follows along willingly and becomes more relaxed. The guilty wants the subject changed; an innocent person may be confused by the sudden change in topics and will want to back to the previous subject.

• Using humor or sarcasm to avoid a subject.

Final Notes:
Obviously, just because someone exhibits one or more of these signs does not make them a liar. The above behaviors should be compared to a persons base (normal) behavior whenever possible.

Most lie detecting experts agree that a combination of body language and other cues must be used to make an educated guess on whether someone is telling the truth or a lie.

ALLAH PAR TAWAKAL

Success

“I call people ‘successful’ not because they have money or their business is doing well but because, as human beings, they have a fully developed sense of being alive and are engaged in a lifetime task of collaboration with other human beings – their mothers and fathers, their family, their friends, their loved ones, the friends who are dying, the friends who are being born.

Success? Don’t you know it is all about being able to extend love to people? Really. Not in a big, capital-letter sense but in the everyday.Little by little, task by task, gesture by gesture, word by word.”
Ralph Fiennes, b.1962 Oscar-nominated British Actor

HIJAB (VEIL) FOR WOMEN

Question:
Why does Islam degrade women by keeping them behind the veil?

Answer:
The status of women in Islam is often the target of attacks in the secular media.
The ‘hijab’ or the Islamic dress is cited by many as an example of the
‘subjugation’ of women under Islamic law. Before we analyze the reasoning
behind the religiously mandated ‘hijab’, let us first study the status of women in
societies before the advent of Islam

1. In the past women were degraded and used as objects of lust
The following examples from history amply illustrate the fact that the status of
women in earlier civilizations was very low to the extent that they were denied
basic human dignity:
a. Babylonian Civilization:
The women were degraded and were denied all rights under the Babylonian
law. If a man murdered a woman, instead of him being punished, his wife
was put to death.
b. Greek Civilization:
Greek Civilization is considered the most glorious of all ancient civilizations.
Under this very ‘glorious’ system, women were deprived of all rights and
were looked down upon. In Greek mythology, an ‘imaginary woman’ called
‘Pandora’ is the root cause of misfortune of human beings. The Greeks
considered women to be subhuman and inferior to men. Though chastity of
women was precious, and women were held in high esteem, the Greeks
were later overwhelmed by ego and sexual perversions. Prostitution
became a regular practice amongst all classes of Greek society.
c. Roman Civilization:
When Roman Civilization was at the zenith of its ‘glory’, a man even had the
right to take the life of his wife. Prostitution and nudity were common
amongst the Romans.
d. Egyptian Civilization:
The Egyptian considered women evil and as a sign of a devil.
e. Pre-Islamic Arabia:
Before Islam spread in Arabia, the Arabs looked down upon women and
very often when a female child was born, she was buried alive.

2. Islam uplifted women and gave them equality and expects them
to maintain their status.
Islam uplifted the status of women and granted them their just rights 1400 years
ago. Islam expects women to maintain their status.
Hijab for men
People usually only discuss ‘hijab’ in the context of women. However, in the
Glorious Qur’an, Allah (swt) first mentions ‘hijab’ for men before ‘hijab’ for the
women. The Qur’an mentions in Surah Noor:
“Say to the believing men that they should lower their gaze and guard
their modesty: that will make for greater purity for them: and Allah is
well acquainted with all that they do.”
[Al-Qur’an 24:30]
The moment a man looks at a woman and if any brazen or unashamed thought
comes to his mind, he should lower his gaze.
Hijab for women.
The next verse of Surah Noor, says:
“ And say to the believing women that they should lower their gaze and
guard their modesty; that they should not display their beauty and
ornaments except what (must ordinarily) appear thereof; that they
should draw veils over their bosoms and not display their beauty
except to their husbands, their fathers, their husbands’ fathers, their
sons…”
[Al-Qur’an 24:31]

3. Six criteria for Hijab.
According to Qur’an and Sunnah there are basically six criteria for observing
hijab:

1. Extent:
The first criterion is the extent of the body that should be covered. This is
different for men and women. The extent of covering obligatory on the male
is to cover the body at least from the navel to the knees. For women, the
extent of covering obligatory is to cover the complete body except the face
and the hands upto the wrist. If they wish to, they can cover even these
parts of the body. Some scholars of Islam insist that the face and the hands
are part of the obligatory extent of ‘hijab’.

All the remaining five criteria are the same for men and women.

2. The clothes worn should be loose and should not reveal the figure.
3. The clothes worn should not be transparent such that one can see through
them.
4. The clothes worn should not be so glamorous as to attract the opposite sex.
5. The clothes worn should not resemble that of the opposite sex.
6. The clothes worn should not resemble that of the unbelievers i.e. they
should not wear clothes that are specifically identities or symbols of the
unbelievers’ religions.

4. Hijab includes conduct and behaviour among other things
Complete ‘hijab’, besides the six criteria of clothing, also includes the moral
conduct, behaviour, attitude and intention of the individual. A person only
fulfilling the criteria of ‘hijab’ of the clothes is observing ‘hijab’ in a limited sense.
‘Hijab’ of the clothes should be accompanied by ‘hijab’ of the eyes, ‘hijab’ of the
heart, ‘hijab’ of thought and ‘hijab’ of intention. It also includes the way a person
walks, the way a person talks, the way he behaves, etc.

5. Hijab prevents molestation
The reason why Hijab is prescribed for women is mentioned in the Qur’an in the
following verses of Surah Al-Ahzab:
“O Prophet! Tell thy wives and daughters, and the believing women
that they should cast their outer garments over their persons (when
abroad); that is most convenient, that they should be known (as such)
and not molested. And Allah is Oft-Forgiving, Most Merciful.”
[Al-Qur’an 33:59]
The Qur’an says that Hijab has been prescribed for the women so that they are
recognized as modest women and this will also prevent them from being
molested.

6. Example of twin sisters
Suppose two sisters who are twins, and who are equally beautiful, walk down
the street. One of them is attired in the Islamic hijab i.e. the complete body is
covered, except for the face and the hands up to the wrists. The other sister is
wearing western clothes, a mini skirt or shorts. Just around the corner there is
a hooligan or ruffian who is waiting for a catch, to tease a girl. Whom will he
tease? The girl wearing the Islamic Hijab or the girl wearing the skirt or the mini?
Naturally he will tease the girl wearing the skirt or the mini. Such dresses are an
indirect invitation to the opposite sex for teasing and molestation. The Qur’an
rightly says that hijab prevents women from being molested.

7. Capital punishment for the rapists
Under the Islamic shariah, a man convicted of having raped a woman, is given
capital punishment. Many are astonished at this ‘harsh’ sentence. Some even
say that Islam is a ruthless, barbaric religion! I have asked a simple question to
hundreds of non-Muslim men. Suppose, God forbid, someone rapes your wife,
your mother or your sister. You are made the judge and the rapist is brought in
front of you. What punishment would you give him? All of them said they would
put him to death. Some went to the extent of saying they would torture him to
death. To them I ask, if someone rapes your wife or your mother you want to put
him to death. But if the same crime is committed on somebody else’s wife or
daughter you say capital punishment is barbaric. Why should there be double
standards?
8. Western society falsely claims to have uplifted women
Western talk of women’s liberalization is nothing but a disguised form of
exploitation of her body, degradation of her soul, and deprivation of her honour.
Western society claims to have ‘uplifted’ women. On the contrary it has actually
degraded them to the status of concubines, mistresses and society butterflies
who are mere tools in the hands of pleasure seekers and sex marketeers,
hidden behind the colourful screen of ‘art’ and ‘culture’.

9. USA has one of the highest rates of rape

United States of America is supposed to be one of the most advanced countries
of the world. It also has one of the highest rates of rape in any country in the
world. According to a FBI report, in the year 1990, every day on an average
1756 cases of rape were committed in U.S.A alone. Later another report said
that on an average everyday 1900 cases of rapes are committed in USA. The
year was not mentioned. May be it was 1992 or 1993. May be the Americans
got ‘bolder’ in the following years.
Consider a scenario where the Islamic hijab is followed in America. Whenever
a man looks at a woman and any brazen or unashamed thought comes to his
mind, he lowers his gaze. Every woman wears the Islamic hijab, that is the
complete body is covered except the face and the hands upto the wrist. After
this if any man commits rape he is given capital punishment. I ask you, in such
a scenario, will the rate of rape in America increase, will it remain the same, or
will it decrease?
10. Implementation of Islamic Shariah will reduce the rate of rapes
Naturally as soon as Islamic Shariah is implemented positive results will be
inevitable. If Islamic Shariah is implemented in any part of the world, whether it
is America or Europe, society will breathe easier. Hijab does not degrade a
woman but uplifts a woman and protects her modesty and chastity.

By DR. ZAKIR ABDULKARIM NAIK

Developing & Implementing Training & Education Programs

To develop or acquire training and education programs to satisfy employee training requirements.

Understand Training Requirements

Review existing support material (e.g., policy and procedure manuals, forms, reference material, equipment and facilities, work sites, job specifications/descriptions, current training material). Interview subject matter specialists to ensure/confirm understanding of material and requirements.

Define Training Objectives and Evaluation Process

Identify performance, skill level, and knowledge required at the end of training. Estimate training time frame and cost in person-days and funds. Define the process that will be used to evaluate the effectiveness of the training (e.g., testing, simulations, problem solving, interviews).

Measure Pre-Training Performance Level

Develop evaluation exercises (e.g., true or false/multiple choice questions, short answers/essays questions, simulations (role playing), oral interviews). Measure current performance of training audience and select participants to be trained.

Evaluate Off-the-Shelf Training/Education

If training requirements are generic (e.g., personal development training, management training, technical training) research and evaluate off-the-shelf training solutions (e.g., courses from companies specializing in specific types of training, technical school/college courses, university courses).

Select Delivery Mode and Instruction Strategy

Select the best approach for training participants (e.g., instructor led training, computer based training, on the job coaching, simulations, workshops, self-paced learning, just-in-time training, off-the-shelf training/education).

Design Custom-Specific Training Material

Develop a detailed outline (e.g., lesson, topic, session) of training courses including sequence of instruction, content to be covered by each topic, paths through training, and approach for each topic, exercise, and workshop. If training will be delivered using multimedia (e.g., computer, video, audio), design each segment type (e.g., screens, menus, scripts, visuals) in the course and prototype (e.g., storyboards, scripts, animations, soundtrack, graphics) key content.

Validate Custom-Specific Training Design

Validate the training design by conducting walk-throughs with subject matter specialists.

Develop Custom-Specific Training Material

Create training material including student workbooks/handouts, instructor guides, visual aids (e.g., foils, slides, graphics), multimedia material (e.g., audio, video, graphics, animation, text), exercises, workshops, simulations, and case-studies.

Tips and Hints

An organization that specializes in developing customized training should be used if custom development is substantial.

IMPLEMENT TRAINING AND EDUCATION PROGRAMS

Purpose

To deliver and support the training and education programs.

Setup Training Environment

Set up and maintain the training environment (e.g., facilities, equipment, hardware, system software, application software, application data).

Administer Training Support Material

Schedule courses, students, and instructors. Administer course material (e.g., student workbooks/handouts, instructor guides, visual aids, multimedia material) and supplies (e.g., name tags, paper, pencils, refreshments). Contact students and instructors. Manage travel and living accommodations.

Pilot Training

Test training program using a cross-section of students. Identify issues with content, logistics, material, and delivery method. Prioritize problems and identify solutions. Revise content and materials and address logistical issues.

Conduct Training Sessions

Conduct training sessions. Monitor sessions and identify issues. Prioritize problems and identify solutions. Revise content and materials and address logistical issues.

Evaluate Effectiveness of Training

Evaluate the effectiveness of the training and education program. The post-training evaluation exercise should measure the same skills and knowledge level as the pre-training evaluation exercise. It is not necessary to evaluate every student or every course offering. An evaluation must be performed:

· when a new course is given or significant changes are made to an existing course,

· when significant problems have been identified with an existing course,

· when a new instructor is teaching,

· on an ongoing basis to a random sampling of courses.

Craig Borysowich (Chief Technology Tactician)