What keeps you awake at night?

“Am I honoring my purpose?”

“Am I in control of my life?”

“Is my career going in the right direction?”

“Do I have enough cash in the bank?”

“Am I doing enough for the people around me?”

changes

change.

everything in life can change. everything .
time change, life change.

firends change.
relashions change.
wishes change.
goals change.
love change.

this is what i am experiencing. and i am lost now. fade up of living this L….

مجھے افغانستان اور وہاں کے لوگون سے نفرت ہے .

It is a failed state. Rampant corruption, almost no electricity, no government control, warlords, and Taliban extremism. If the kids are girls, they have almost no chance of an education without bombings, teacher killings, and acid attacks. Taliban Law is in effect in many parts of the country and there are shadow governors in most of the provinces. Taliban justice prevails, which is as severe as can be and involves stoning a woman for adultery or rape (to avoid being stoned the woman needs male witnesses otherwise rape is classified as adultery).

ماں باپ

سورة لقمَان
اور (اُس وقت کو یاد کرو) جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا خدا کے ساتھ شرک نہ کرنا۔ شرک تو بڑا (بھاری) ظلم ہے (۱۳) اور ہم نے انسان کو جسے اُس کی ماں تکلیف پر تکلیف سہہ کر پیٹ میں اُٹھائے رکھتی ہے (پھر اس کو دودھ پلاتی ہے) اور( آخرکار) دو برس میں اس کا دودھ چھڑانا ہوتا ہے (اپنے نیز) اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید کی ہے کہ میرا بھی شکر کرتا رہ اور اپنے ماں باپ کا بھی (کہ تم کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے (۱۴) اور اگر وہ تیرے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک کرے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کا کہا نہ ماننا۔ ہاں دنیا (کے کاموں) میں ان کا اچھی طرح ساتھ دینا اور جو شخص میری طرف رجوع لائے اس کے رستے پر چلنا پھر تم کو میری طرف لوٹ کر آنا ہے۔ تو جو کام تم کرتے رہے میںسب سے تم کو آگاہ کروں گا (۱۵)
ماں باپ کے حقوق

ماں باپ کے حقوق

ماں باپ کے حقوق

ماں باپ کے حقوق

ماں باپ کے حقوق

ماں باپ کے حقوق

source : minhajbooks

اس کا نام قیامت ہے

ارشاد باری تعالی ہے
ہر جان کو موت کا مزا چکھنا ہے ، اور ہم تمہاری آزمائش کرتے ہیں برائی اور بھلائی سے ، جانچنے کو ، اور ہماری ہی طرف تمہیں لوٹ کر آنا ہے 
(الانبیاء : ۳۵، کنزالایمان )

روح کے جسم سے جدا ہوجانے کا نام موت ہے اور یہ ایسی حقیقت ہے کہ جس کا دنیا میں کوئی منکر نہیں ، ہر شخص کی زندگی مقرر ہے نہ اس میں کمی ہو سکتی ہے اور نہ زیادتی 
(یونس : ۴۹)

، موت کے وقت کا ایمان معتبر نہیں ، مسلمان کے انتقال کے وقت وہاں رحمت کے فرشتے آتے ہیں جبکہ کافر کی موت کے وقت عذاب کے فرشتے اترتے ہیں۔

#
مسلمانوں کی روحیں اپنے مرتبہ کے مطابق مختلف مقامات میں رہتی ہیں بعض کی قبر پر ، بعض کی چاہ زمزم میں ، بعض کی زمین و آسمان کے درمیان ، بعض کی پہلے سے ساتویں آسمان تک ، بعض کی آسمانوں سے بھی بلند ، بعض کی زیر عرش قندیلوں میں اور بعض کی اعلی علیین میں ، مگر روحیں کہیں بھی ہوں ان کا اپنے جسم سے تعلق بدستور قائم رہتا ہے جو ان کی قبر پر آئے وہ اسے دیکھتے پہچانتے اور اس کا کلام سنتے ہیں بلکہ روح کا دیکھنا قبر قبر ہی سے مخصوص نہیں ، اس کی مثال حدیث میں یوں بیان ہوئی ہے کہ ایک پرندہ پہلے قفس میں بند تھا اور اب آزاد کر دیا گیا ۔ ائمہ کرام فرماتے ہیں ، بیشک جب پاک جانیں بدن کے علاقوں سے جدا ہوتی ہیں تو عالم بالا سے مل جاتی ہیں اور سب کچھ ایسا دیکھتی سنتی ہیں جیسے یہاں حاضر ہیں ۔ حدیث پاک میں ارشادہوا ، جب مسلمان مرتا ہے تو اس کی راہ کھول دی جاتی ہے وہ جہاں چاہے جائے۔

#
کافروں کی بعض روحیں مرگھٹ یا قبر پر رہتی ہیں ، بعض چاہ برہوت میں ، بعض زمین کے نچلے طبقوں میں ، بعض اس سے بھی نیچے سجین میں ، مگر وہ کہیں بھی ہوں اپنے مرگھٹ یا قبر پر گزرنے والوں کو دیکھتے پہچانتے اور ان کی بات سنتے ہیں ، انہیں کہیں جان آنے کا اختیار نہیں ہوتا بلکہ یہ قید رہتی ہیں ، یہ خیال کہ روح مرنے کے بعد کسی اور بدن میں چلی جاتی ہے ، اس کا ماننا کفر ہے ۔

#
دفن کے بعد قبر مردے کو دباتی ہے اگر وہ مسلمان ہو تو یہ دبانا ایسا ہوتا ہے جیسے ماں بچے کوآغوش میں لیکر پیار سے دبائے اور اگر وہ کافر ہو تو زمین اس زور سے دباتی ہے کہ اس کی ایک طرف کی پسلیاں دوسری طرف ہوجاتی ہیں۔ مردہ کلام بھی کرتا ہے مگر س کے کلام کو جنوں اور انسانوں کے سوا تمام مخلوق سنتی ہے۔

#
جب لوگ مردے کو دفن کر کے وہاں سے واپس ہوتے ہیں تو وہ مردہ انکے جوتوں کی آواز سنتا ہے پھر اس کے پاس دو فرشتے زمین چیرتے آتے ہیں انکی صورتیں نہایت ڈراؤنی ، آنکھیں بہت بڑی اور کالی و نیلی ، اور سر سے پاؤں تک ہیبت ناک بال ہوتے ہیں ایک کا نام منکر اور دوسرے کا نکیر ہے وہ مردے کو جھڑک کر اٹھاتے اور کرخت آوازمیں سوال کرتے ہیں

پہلا سوال : ( من ربک ) تیرا رب کون ہے ؟

دوسرا سوال : ( ما دینک ) تیرا دین کیا ہے ؟

تیسرا سوال : حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کر کے پوچھتے ہیں ( ما کنت تقول فی ھذا الرجل ) انکے بارے میں تو کیا کہتا تھا؟

#
مسلمان جو اب دیتا ہے ، میرا رب اللہ ہے ، میرا دین اسلام ہے ، میں گواہی دیتاہوں کہ یہ اللہ تعالی کے رسول ہیں فرشتے کہتے ہیں ، ہم جانتے تھے کہ تو یہی جواب دے گا پھر آسمان سے ندا ہوگی ، میرے بندے نے سچ کہا ، اس کے لیے جنتی بچھونا بچھاؤ ، اسے جنتی لباس پہناؤ اور اس کے لیے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دو ، پھر دروازہ کھول دیا جاتا ہے جس سے جنت کی ہوا اور خوشبو اس کے پاس آتی رہتی ہے اور تاحد نظر اس کی قبر کشادہ کر دی جاتی ہے اور اس سے کہا جاتا ہے ، تو سو جا جیسے دولہا سوتا ہے یہ مقام عموما خواص کے لئے اور عوام میں ان کے لئے ہے جنہیں رب تعالی دینا چاہے ، اسی طرح وسعت قبر بھی حسب مراتب مختلف ہوتی ہے ۔


اگر مردہ کافر و منافق ہے تو وہ ان سوالوں کے جواب میں کہتا ہے ، افسوس مجھے کچھ معلوم نہیں ، میں جو لوگوں کو کہتے سنتا تھا وہی کہتا تھا، اس پر آسمان سے منادی ہوتی ہے یہ جھوٹا ہے اس کے لئے آگ کا بچھونا بچھاؤ ، اسے آگ کالباس پہناؤ اور جہنم کی طرف ایک دروازہ کھول دیا ، پھر اس دروازے سے جہنم کی گرمی اورلپٹ آتی رہتے ہے اور اس پر عذاب کے لئے دو فرشتے مقرر کر دیے جاتے ہیں۔ جو اسے لوہے کے بہت بڑے گرزوں سے مارتے ہیں نیز عذاب کے لئے اس پر سانپ اور بچھو بھی مسلط کر دیے جاتے ہیں۔

#
قبر میں عذاب یا نعمتیں ملنا حق ہے اور یہ روح و جسم دونوں کے لئے ہے ، اگر جسم جل جائے یا گل جائے یا خاک ہوجائے تب بھی اس کے اجزائے اصلیہ قیامت تک باقی رہتے ہیں ان اجزاء اور رو ح کا باہمی تعلق ہمیشہ قائم رہتا ہے اور دونوں عذاب و ثواب سے آگا ہ و متاثر ہوتے ہیں۔ اجزائے اصلیہ ریڑھ کی ہڈی میں ایسے باریک اجزاء ہوتے ہیں جو نہ کسی خوردبین سے دیکھے جاسکتے ہیں نہ آگ انہیں جلا سکتی ہے اور نہ ہی زمین انہیں گلاسکتی ہے ۔ اگر مردہ دفن نہ کیا گیا یا اسے درندہ کھا گیا ایسی صورتوں میں بھی اس سے وہیں سوال و جواب اور ثواب و عذاب ہوگا۔

#
بیشک ایک دن زمین و آسمان ، جن و انسان اور فرشتے اور دیگرتمام مخلوق فنا ہو جائے گی۔ اس کا نام قیامت ہے ۔ اس کا واقع ہونا حق ہے اور اس کا منکر کافر ہے ۔ قیامت آنے سے قبل چند نشانیان ظاہر ہونگی: دنیا سے علم اٹھ جائے گا یعنی علماء باقی نہ رہیں گے، جہالت پھیل جائے گی ، بے حیائی اور بدکاری عام ہوجائے گی ، عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہوجائے گی ، بڑے دجال کے سوا تیس دجال اور ہونگے جو نبوت کا دعوی کریں گے حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا ، مال کی کثرت ہوگی ، عرب میں کھیتی ، باغ اور نہریں جاری ہوجائیں گی ، دین پر قائم رہنا بہت دشوار ہوگا ، وقت بہت جلد گزرے گا ، زکوہ دینا لوگوں پر گراں ہوگا ، لوگ دنیا کے لئے دین پڑھیں گے ، مرد عورتوں کی اطاعت کریں گے ، والدین کی نافرمانی زیادہ ہوگی ، دوست کو قریب اور والد کو دور کریں گے ، مسجدوں میں آوازیں بلند ہونگی ، بدکار عورتوں اور گانے بجانے کے آلات کی کثرت ہوگی ، شراب نوشی عام ہوجائے گی ، فاسق اور بدکار سردار حاکم ہونگے، پہلے بزرگوں پر لوگ لعن طعن کریں گے ، دروندے ، کوڑے کی نوک اور جوتے کے تسمے باتیں کریں گے ۔ 
(ماخوذ از بخاری ، ترمذی )

#
کانا دجال ظاہر ہوگا جس کی پیشانی پر کافر لکھا ہوگا جسے ہر مسلمان پڑھ لے گا، وہ حرمین طیبین کے سوا تمام زمین میں پھرے گا ، اس کے ساتھ ایک باغ اور ایک آگ ہوگی جس کا نام وہ جنت و دوزخ رکھے گا ، جو اس پر ایما ن لائے گا اسے اپنی جنت میں ڈالے گا جو کہ درحقیقت آگ ہوگی اور اپنے منکر کو دوزخ میں ڈالے گا جو کہ در اصل آرام و آسائش کی جگہ ہوگی ۔ دجال کئی شعبدے دکھائے گا ، وہ مردے زندہ کرے گا ، سبزہ ا گائے گا ، بارش برسائے گا ، یہ سب جادوں کے کرشمے ہونگے۔

#
جب ساری دنیا میں کفر کا تسلط ہوگا توتمام ا بدال و اولیاء حرمین شریفین کو ہجرت کر جائیں گے اسوقت صرف وہیں اسلام ہوگا ۔ ابدال طواف کعبہ کے دواران امام مہدی رضی اللہ عنہ کو پہچان لیں گے اور ان سے بیعت کی درخواست کریں گے وہ انکار کر دیں گے ، پھر غیب سے ندا آئے گی ، (یہ اللہ تعالی کے خلیفہ مہدی ہیں ان کا حکم سنو اور اطاعت کرو) ۔ سب لوگ آپ کے دست مبارک پر بیعت کریں گے ، آپ مسلمانوں کو لیکر ملک شام تشریف لے جائیں گے۔

#
جب دجال ساری دنیا گھوم کر ملک شام پہنچے گا اس وقت حضرت عیسٰی علیہ السلام جامع مسجد دمشق کے شرقی مینارہ پر نزول فرمائیں گے ، اس وقت نماز فجر کے لئے اقامت ہوچکی ہوگی ، آپ امام مہدی رضی اللہ عنہ کو امامت کا حکم دیں گے اور وہ نماز پڑھائیں گے ۔ دجال ملعون حضرت عیسٰی علیہ السلام کے سانس کی خوشبو سے پگھلنا شروع ہوگا جیسے پانی میں نمک گھلتا ہے ، جہاں تک آپکی نظر جائےگی وہاں تک آپ کی خوشبو پہنچے گی ، دجال بھاگے گا آپ اس کا تعاقب فرمائیں گے اور اسے بیت المقدس کے قریب مقام (لد) میں قتل کردیں گے۔

#
حضرت عیسی علیہ السلام کا زمانہ بڑی خیر و برکت کا ہوگا ، زمین اپنے خزانے ظاہر کر دے گی ، مال کی کثرت کے باعث لوگوں کو مال سے رغبت نہ رہے گے ، آپ صلیب توڑیں گے اور خنزیر قتل کریں گے یہودیت ، نصرانیت اور تمام باطل مذاہب مٹادیں گے ، ساری دنیا میں دین صرف اسلام ہوگا اورمذہب صرف اہلسنت ۔ آپ کے عہد میں شیر اور بکری ایک ساتھ کھائیں گے ، بچے سانپوں سے کھیلیں گے اور بغض و حسد اور عداوت کا نام و نشان نہ رہے گا، آپ چالیس سال قیام فرمائیں گے ، نکاح کریں گے ، اولاد بھی ہوگی اور بعد وصال آپ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں مدفون ہونگے ۔

#
دجال کے قتل کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام کو رب تعالی کا حکم ہوگا کہ مسلمانوں کو کوہ طور پر لے جاؤ۔ مسلمانوں کے کوہ طور پرجانے کے بعد یاجوج ماجوج ظاہر ہونگے ، یہ فسادی لوگ ہیں جو حضرت سکندر ذوالقرنین کی بنائی ہوئی آہنی دیوار کے پیچھے محصور ہیں اس وقت یہ دیوار توڑ کر نکلیں گے اور زمیں میں قتل و غارت اور فساد پھیلائیں گے ۔ پھر حضرت عیسی علیہ السلام کی دعا سے اللہ تعالی ان کی گردنوں میں ایک خاص قسم کے کیڑے پیدا فرمائے گا جس سے یہ سب ہلاک ہوجائیں گے۔

#
قیامت سے قبل ایک عجیب شکل کا جانور ظاہر ہوگا جس کا نام دائتہ الارض ہے ، یہ کوہ صفا سے ظاہر ہوکر تمام دنیا میں پھرے گا ، فصاحت کے ساتھ کلام کرے گا ، اس کے پاس حضرت موسی علیہ السلام کا عصا اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی ہوگی ، یہ عصا سے ہر مسلمان کی پیشانی پر ایک نورانی نشان بنائے گا اور انگوٹھی سے ہر کافر کے ماتھے پر سیاہ دھبہ لگائے گا ، اس وقت تمام مسلم و کافر علانیہ ظاہر ہوجائیں گے۔ پھر جو کافر ہے ہر گز ایمان نہ لائے گا اور مسلمان ہمیشہ ایمان پر قائم رہے گا ۔

#
جب دابتہ الارض نکلے گا تو حسب معمول آفتاب بارگاہ الہی میں سجد ہ کر کے طلوع کی اجازت چاہے گا اجازت نہ ملے گی بلکہ حکم ہوگا واپس جا ۔ تو آفتاب مغرب سے طلوع ہو گا اور نصف آسمان تک آ کر واپس لوٹ جائے گا ۔ اور پھر مغرب کی جانب غروب ہوگا۔ اس نشانی کے ظاہر ہوتے ہی توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا۔ 
( از مسلم ، بخاری ، مشکوہ )

#
جب قیامت آنے میں چالیس برس رہ جائیں گے ۔ تو ایک خوشبودار ٹھنڈی ہوا چلے گی جو لوگوں کی بغلوں کے نیچے سے گزرے گی جس کے اثر سے ہر مسلمان کی روح قبض ہوجائے گی ، صرف کافر ہی باقی رہ جائیں گے اور انہیں کافروں پر قیامت قائم ہو گی۔ جب یہ سب علامات پوری ہوجائیں گی اور زمین پر کوئی اللہ کہنے والا نہ رہے گا تو حکم الہی سے حضرت اسرافیل علیہ السلام صور پھونکیں گے ، شروع میں اس کی آواز بہت باریک ہوگی پھر رفتہ رفتہ بہت بلند ہوجائے گی ، لوگ اسے سنیں گے اور بے ہوش ہو کر گرپڑیں گے ۔ اور مرجائیں گے ، زمین و آسمان ، فرشتے اور ساری کائنات فنا ہوجائے گی ، ا س وقت اللہ عزوجل کے سوا کوئی نہ ہوگا ، وہ فرمائے
گا ، ( آج کس کی بادشاہت ہے ؟ کہاں ہیں جبار اور متکبر لوگ ؟ کوئی جواب دینے والا نہ ہوگا پھر خود ہی فرمائے گا
( للہ الواحد القھار ) ترجمہ ۔ ( صرف اللہ واحد قھار کی بادشاہت ہے )


پھر جب اللہ تعالی چاہے گا حضرت اسرافیل علیہ السلام کو زندہ فرمائے گا اور صور کو پیدا کر کے دوبارہ پھونکنے کا حکم دے گا ، صور پھونکتے ہی پھر سب کچھ موجود ہوجائے گا، سب سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے روضہء اطہر سے یوں باہر تشریف لائیں گے کہ دائیں ہاتھ میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور بائیں ہاتھ میں فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھامے ہونگے پھر مکہ مکرمہ و مدینہ طیبہ میں مدفون مسلمانوں کے ہمراہ میدان حشر میں تشریف لے جائیں گے ۔

#
دنیا میں جو روح جس جسم کے ساتھ تھی اس روح کا حشر اسی جسم میں ہوگا ، جسم کے اجزاء اگرچہ خاک یا راکھ ہوگئے ہوں یا مختلف جانوروں کی غذا بن چکے ہوں پھر بھی اللہ تعالی ان سب اجزاء کو جمع فرما کر قیامت میں زندہ کرے گا

ارشاد باری تعالی ہے 
بولو، ایسا کون ہے کہ ہڈیوں کو زندہ کرے جب وہ بالکل گل گئیں ؟ تم فرماؤ ، انہیں وہ زندہ کرے گا جس نے پہلی بار انہیں بنایا اور اسے ہر پیدائش کا علم ہے 
(یس : ۷۸ ، ۷۹، کنز الایمان )

#
میدان حشر ملک شام کی زمین پر قائم ہوگا اور زمین بالکل ہموار ہوگی۔ ان دن زمین تانبے کی ہوگی اور آفتاب ایک میل کے فاصلے پر ہوگا، گرمی کی شدت سے دماغ کھولتے ہونگے ، پسینہ کثرت سے آئے گا ، کسی کے ٹخنوں تک ، کسی کے گھٹنوں تک، کسی کے گلے تک اور کسی کے منہ تک لگام کی مثل ہوگا یعنی ہر شخص کے اعمال کے مطابق ہوگا ۔ یہ پسینہ نہایت بدبو دار ہوگا ، گرمی کی کی شدت سے زبانیں سوکھ کر کانٹا ہو جائیں گی ، بعض کی زبانیں منہ سے باہر نکل آئیں گی اور بعض کے دل گلے تک آجائیں گے ، خوف کی شدت سے دل پھٹے جاتے ہونگے ہر کوئی بقدر گناہ تکلیف میں ہوگا ، جس نے زکوہ نہ دی ہوگی اس کے مال کو خوب گرم کر کے اس کی کروٹ ، پیشانی اور پیٹھ پر داغ لگائے جائیں گے۔ وہ طویل دن خداکے فضل سے اس کے خاض بندوں کے لئے ایک فرض نماز سے زیادہ ہلکا اور آسان ہوگا۔

قیامت کے دن کے متعلق قرآن حکیم میں ارشاد ہوا 
جس دن آسمان ایسے ہوگا جیسے گلی ہوئی چاندی ، اور پہاڑ ایسے ہلکے ہوجائیں گے جیسے اون، اور کوئی دوست کسی دوست کو دیکھنے کے باوجود اس کا حال نہ پوچھے گا، مجرم آرزو کرے گا کہ کاش ! اس د ن کے عذاب سے چھٹنے کے بدلے میں دیدے اپنے بیٹے ، اور اپنی بیوی ، اور اپنا بھائی ، اور اپنا کنبہ جس میں اس کی جگہ ہے ، اور جتنے زمین میں ہیں سب ، پھر یہ بدلہ دینا اسے بچالے؟ ہرگز نہیں ۔ 
(المعارج : ۸ تا ۱۵)

#
قیامت کا دن پچاس ہزار برس کے برابر ہوگا۔ اور آدھا دن تو انہی مصائب و تکالیف میں گزرے گا ۔ پھر اہل ایمان مشورہ کر کے کوئی سفارشی تلاش کریں گے ۔ جو ان مصائب سے نجات دلائے ۔ پہلے لوگ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس حاضر ہو کر شفاعت کی درخواست کریں گے ، میں اس کام کے لائق نہیں تم ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ اللہ کے خلیل ہیں ، پس لوگ ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوجائیں گے آپ فرمائیں گے ، میں اس کام کے لائق نہیں تم موسی علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ لوگ وہاں جائیں گے ۔ تو وہ بھی یہی جواب دیں گے اور عیسی علیہ السلام کے پاس بھیج دیں گے۔ وہ فرمائیں گے ، تم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جاؤ وہ ایسے خاص بندے ہیں کہ ان کے لئے اللہ تعالی نے ان کے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ معاف فرمادیے۔ پھر سب لوگ حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہونگے اور شفاعت کی درخواست کریں گے۔ آقا علیہ السلام فرمائیں گے ، میں ا س کام کے لئے ہوں ، پھر آپ بارگاہ الہی میں سجدہ کر-یں گے ۔ ارشاد باری تعالی ہوگا

اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! سجدہ سے سر اٹھاؤ اور کہو تمہاری بات سنی جائے گی ، اور مانگو تمہیں عطا کیا جائے گا ، اور شفاعت کرو تمہاری قبول کی جائے گی 
(از بخاری ، مسلم ، مشکوہ) 

#
آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم مقام محمود پر فائز کیے جائیں گے

قرآن کریم میں ہے 
قریب ہے کہ تمہیں تمہارا رب ایسی جگہ کھڑا کرے ۔ جہاں سب تمہاری حمد کریں 
(بنی اسرائیل : ۷۹)

مقام محمود مقام شفاعت ہے آپ کو ایک جھنڈا عطا ہوگا جسے ( لواء الحمد ) کہتے ہیں ، تمام اہل ایمان اسی جھنڈے کے نیچے جمع ہونگے اور حضور علیہ السلام کی حمد و ستائش کریں گے ۔

#
شافع محشر صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک شفاعت تو تمام اہل محشر کے لئے ہے جو میدان حشرمیں زیادہ دیر ٹہرنے سے نجات اور حساب و کتاب شروع کرنے کے لئے ہو گی ۔ آپ کی ایک شفاعت ایسی ہوگی جس سے بہت سے لوگ بلا حساب جنت میں داخل ہونگے جبکہ آپ کی ایک شفاعت سے جہنم کے مستحق بہت سے لوگ جہنم میں جانے سے بچ جائیں گے ۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے بہت سے گنا ہ گار جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دیے جائیں گے۔ نیز آپ کی شفاعت سے اہل جنت بھی فیض پائیں گے اور انکے درجات بلند کیے جائیں گے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دیگر انبیا ء کرام اپنی اپنی امتوں کی شفاعت فرمائیں گے ۔ پھر اولیائے کرام ، شہداء علماء حفاظ حجاج فوت شدہ نا بالغ بچے اپنے ماں باپ کی شفاعت کریں گے ۔ ا گر کسی نے علماء حق میں سے کسی کو دنیا میں وضو کے لیے پانی دیا ہوگا تو وہ بھی یاد دلاکر شفاعت کی درخواست کرے گا اور وہ اس کی شفاعت کریں گے۔

#
حساب حق ہے اس کا منکر کافر ہے ۔

پھر بیشک ضرور اس دن تم سے نعمتوں کی پرسش ہوگی 
(التکاثر : ۸، کنز الایمان )

#
حضور علیہ السلام کے طفیل بعض اہل ایمان بلا حساب جنت میں داخل ہونگے ، کسی سے خفیہ حساب کیا جائے گا ، کسی سے علانیہ ، کسی سے سختی سے اور بعض کے منہ پر مہر کردی جائے گی اور ان کے ہاتھ پاؤں و دیگر اعضاء ان کے خلاف گواہی دیں گے ۔ قیامت کے دن نیکوں کو دائیں ہاتھ میں اور بروں کو بائیں ہاتھ میں ان کا نامہ اعمال دیا جائے گا، کافر کا بایاں ہاتھ ان کی پیٹھ کے پیچھے کر کے اس میں نامہ اعمال دیا جائے گا۔

اور البتہ وہ شخص جس کا نامۂ اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائے گا
(الانشقاق : ۱۰)

ارشاد باری تعالی ہے

بیشک تم پر کچھ نگہبان ہیں ، معزز لکھنے والے ، جانتے ہیں جو کچھ تم کرو
(الانفطار : ۱۰ تا ۱۲ )

انسان کے دائیں کندھے کی طرف نیکیاں لکھنے والے فرشتے ہوتے ہیں اور بائیں طرف برائیاں لکھنے والے ۔ انسان کے نامہ اعمال میں سب کچھ لکھا جاتا ہے

قرآن کریم میں ہے
قیامت کے دن مجرم ) کہیں گے ، ہائے خرابی ! ہمارے اس نامہ اعمال کو کیا ہو ا، نہ ا س نے کوئی چھوٹا گناہ چھوڑا نہ بڑا جسے گھیر نہ لیا ہو اور اپنا سب کیا انہوں نے سامنے پایا ، اور تمہارا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا
(الکہف : ۴۹ ، کنز الایمان )

#
میزان حق ہے یہ ایک ترازو ہے جس پر لوگوں کے نیک و بد اعمال تو لے جائیں گے

ارشاد باری تعالی ہے
اور اس دن تو ل ضرور ہونی ہے توجن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے ، اور جن کے پلے ہلکے ہوئے تو وہی ہیں جنہوں نے اپنی جان گھاٹے میں ڈالی
(الاعراف : ۸، ۹ ، کنز الایمان )

نیکی کا پلہ بھاری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ پلہ اوپر کو اٹھے جبکہ دنیا میں بھاری پلہ نیچے کو جھکتا ہے

#
حوض کوثر حق ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا گیا ، ایک حوض میدان حشر میں اور دوسرا جنت میں ہے اور دونوں کا نام کوثر ہے کیونکہ دونوں کا منبع ایک ہی ہے ۔ حوض کوثر کی مسافر ایک ماہ کی راہ ہے ، اس کے چاروں کناروں پر موتیوں کے خیمے ہیں ، اس کی مٹی نہایت خوشبودار مشک کی ہے ، اسکا پانی دودھ سے زیادہ سفید ، شہد سے زیادہ میٹھا اور مشک سے زیادہ پاکیزہ ہے ، جو اس کا پانی پیے گا وہ کبھی بھی پیاسا نہ ہوگا ۔
(مسلم ، بخاری ) 

#
صراط حق ہے یہ ایک پل ہے جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہوگا اور جہنم پر نصب کیا جائے گا ۔ جنت میں جانے کا یہی راستہ ہوگا ، سب سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسے عبور فرمائیں گے پھر دیگر انبیاء و مرسلین علیہم السلام پھر یہ امت اور پھر دوسری امتیں پل پر سے گزریں گی ۔ پل صراط پر سے لوگ اپنے اعمال کے مطابق مختلف احوال میں گزریں گے بعض ایسی تیزی سے گزریں گے جیسے بجلی چمکتی ہے ، بعض تیز ہوا کی مانند ، بعض پرندہ اڑنے کی طرح ، بعض گھوڑا دوڑنےکی مثل اور بعض ایسے گزریں گے جیسے آدمی دوڑتا ہے جبکہ بعض پیٹھ کے بل گھسٹتے ہوئے اور بعض چیونٹی کی چال چلتے ہوئے گزریں گے ۔ پل صراط دونوں جانب بڑے بڑے آنکڑے لٹکتے ہونگے جو حکم الہی سے بعض کو زخمی کردیں گے اور بعض کو جہنم میں گرا دیں گے۔ 
(بخاری ، مسلم ، مشکوہ ) 

#
سب اہل محشر تو پل صراط پر سے گزرنے کی فکر میں ہونگے اور ہمارے معصوم آقا شفیع محشر صلی اللہ علیہ وسلم پل کے کنارے کھڑے ہو کر اپنی عاصی امت کی نجات کے لئے رب تعالی سے دعا فرما رہے ہونگے ۔ رب سلم رب سلم ) الہی ! ان گناہگاروں کو بجا لے بچالے ، آپ صرف اسی جگہ گرتوں کا سہارا نہ بنیں گے بلکہ کبھی میزان پر گناہ گاروں کا پلہ بھاری بناتے ہونگے اور کبھی حوض کوثر پر پیاسوں کو سیراب فرمائیں گے ، ہر شخص انہی کو پکارے گا اور انہی سے فریاد کر ے گا کیوں کہ باقی سب تو اپنی فکر میں ہونگے اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسروں کی فکر ہوگی۔

#
اللہ تعالی نے ایمان والوں کے لیے جنت بنائی ہے ۔ اور اس میں وہ نعمتیں رکھی ہیں جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی دل میں انکا خیال آیا۔ 
(بخاری ، مسلم)

جنت کے آٹھ طبقے ہیں : جنت الفردوس ، جنت عدن ، جنت ماویٰ، دارالخلد ، دارالسلام ، دار المقامہ ، علیین ، جنت نعیم ۔ (تفسیر عزیزی ) جنت میں ہر مومن اپنے اعمال کے لحاظ سے مرتبہ پائے گا۔ 

#
جنت میں سو درجے ہیں اور ہر درجے میں ا تنی وسعت ہے جتنا زمین اور آسمان کے درمیان فاصلہ ہے، جنت کا سب سے اعلی درجہ فردوس ہے ۔ اس میں جنت کی چار نہریں جاری ہیں ، تمام جنتوں سے اوپر عرش ہے ۔ 
( ترمذی ) 

جنت میں چار طرح کی نہریں ہیں پانی کی ، دودھ کی ، شہد کی اور پاکیزہ شراب کی ۔
(محمد : ۱۵)

اہل جنت کو پاکیزہ شراب سے لبریز جام دیے جائیں گے جس کا رنگ سفید ہوگا۔ اور جس کے پینے سے لذت حاصل ہوگی ، نہ اس میں نشہ ہوگا اور نہ اسے پینے سے سر چکرائے گا۔
(الصفت : ۴۵ تا ۴۷)

#
پہلا گروہ جو جنت میں جائے گا ان کے چہرے چودہویں کے چاند کی طرح روشن ہونگے اور دوسرے گروہ کے چہرے نہایت چمکدار ستارے کی طرح ہونگے ، ان میں کوئی اختلاف و بعض نہ ہوگا۔ جنت میں کوڑا یا چھڑی رکھنے کی جگہ دنیا اور اس کی تمام نعمتوں سے بہتر ہے ۔ جنت میں ایک درخت ہے (جس کا نام طوبی ہے ) اس کے سائے میں کوئی سوار تیز رفتار گھوڑے پر سو برس تک سفر کرتا ہے پھر بھی وہ ا س کے سائے کو عبور نہ کر سکے گا۔ 
(بخاری ، مسلم )

#
جنت کی دیواریں سونے اور چاندی کی اینٹوں اور مشک کے گارے سے بنی ہیں ، اس کی زمین میں مٹی کی بجائے زعفران ہے اور اس نہروں میں کنکریوں کی جگہ موتی اور یاقوت ہیں ، جنت میں رہنے کے لیے موتیوں کے خیمے ہونگے ، اہل جنت خوبصورت بے ریش مرد ہونگے ان کی آنکھیں سرمگیں ہونگی وہ ہمیشہ تیس برس کے دکھائی دیں گے ۔ ان کی جوانی کبھی ختم نہ ہوگی اور نہ ہی ان کے لباس پرانے ہونگے۔ وہ ایک دوسرے کو ایسے دیکھیں گے جیسے تم افق پر چمکنے والے ستارے کو دیکھتے ہو۔ جنتی ہمیشہ زندہ رہیں گے انہیں نہ بیند آئے گی نہ موت ۔ (مشکوہ )

#
جنت میں خوبصورت آنکھوں اور سفید رنگ والی حوریں ہونگی جو نہایت اچھی آواز میں حمد و ثنا کا نغمہ (بغیر ساز کے ) گائیں گی ایسی حسین آواز کبھی کسی نے نہ سنی ہوگی وہ کہیں گی ، ہم ہمیشہ رہنے والی ہیں ہم کبھی نہیں مریں گی ہمیں نعمتیں دی گئی ہیں ہم کبھی محتاج نہ ہونگی ہم راضی رہنے والی ہیں کبھی ناراض نہ ہونگی ، مبارکباد اس کے لیے جو ہمارا ہے اور ہم اس کی ہیں ۔ (ترمذی )

ایک ادنی جنتی کو بھی (۸۰) ہزار خادم اور (۷۲) حوریں ملیں گی ، حوریں ایسی حسین ہونگی کہ ان کے لباس اور گوشت کے باہر ان کی پنڈلویں کا مغز دکھائی دے گا۔ 
(مشکوہ ) 

ارشاد باری تعالی ہوا 
ان (باغوں میں ) عورتیں ہیں عادت کی نیک اور صورت کی اچھی ، تو اپنے رب کی کونسی نعمت جھٹلاؤ گے ، حوریں ہیں خیموں میں پردہ نشین ، تو اپنے رب کی کونسی نعمت کو جھٹلاؤ گے ، ان سے پہلے انہیں ہاتھ نہ لگایا کسی آدمی اور نہ جن نے ، تو اپنے رب کی کونسی نعمت جھٹلاؤ گے
(رحمن : ۷۰ تا ۷۵ ، کنز الایمان )

جنت کی حور اگر زمین کی طرف جھانکے تو زمین سے آسمان تک روشنی ہوجائے اور سب جگہ خوشبو سے بھر جائے 
(بخاری ) 

نیز چاند و سورج کی روشنی ماند پڑجائے، اور اگر وہ سمندر میں تھوک دے تو اس کے تھو ک کی شیرنی کی وجہ سے سمندر کا پانی میٹھا ہوجائے ۔ خیال رہے کہ جو مثالیں جنت کی تعریف میں بیان ہوئی ہیں وہ محض سمجھانے کے لئے ہیں ورنہ دنیا کی اعلی ترین نعمتوں کو جنت کی کسی چیز کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں ہے۔

#
اللہ عزوجل نے اہل جنت کے متعلق ارشاد فرمایا

اور ان کے خدمت گار لڑکے ان کے گرد پھریں گے گویا وہ موتی ہیں چھپا کر رکھے گئے
نیز فرمایا 
اور ہم نے ان کی مدد فرمائی میوے اور گوشت سے جو چاہیں
(الطور : ۲۴ ، ۲۲)

جنتی جو چاہیں گے فورا ان کے سامنے موجود ہوگا اگر کسی پرندے کا بھنا گوشت کھانے کی خواہش ہوگی تو گلاس وغیرہ خود ہاتھ میں آجائیں گے اور ان میں عین ان کی خواہش کے مطابق مشروب موجود ہوگا۔ جنتیوں کو سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے اور وہاں ان کی پوشاک ریشم ہوگی ۔
(فاطر : ۳۳ )

اہل جنت کی نیک بیویوں کو کنواری ، ہم عمر اور حسین و جمیل بنا کر جنت میں انکا ساتھ عطا ہوگا ۔
(الواقعہ : ۳۶)

جنتیوں کے مومن والدین اور اولاد کو بھی جنت میں ان سے ملا دیا جائے گا بلکہ ان کے طفیل اعلی مقام دیا جائے گا۔

ارشاد ہوا 
(اور جو ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی ، ہم نے ان کی اولاد ان سے ملادی )
(الطور : ۲۱، کنز الایمان )

جنت میں غم ، بیماری نیز پیشاب ، پاخانہ ، تھوک ، ناک بہنا ، کان کا میل ، بدن کا میل وغیرہ بالکل نہ ہونگے ، جنتیوں کا کھانا ایک فرحت بخش خوشبودار ڈکار اور کستوری کی طرح کوشبودار پسینے سے ہضم ہوجائے گا۔ 
(مسلم ، بخاری )

#
جنت میں ا یک اعلی ترین نعمت یہ ہے کہ رب تعالی اہل جنت سے فرمائے گا ، میں تمہیں اپنی رضا عطا کرتا ہوں ۔ اور اب ہمیشہ تمہیں میری رضا حاصل رہے گی ۔ جنت میں سب سے عظیم نعمت دیدار باری تعالی ہے فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ بیشک تم اپنے رب کو ان آنکھوں سے دیکھو گے جیسے آفتاب اور چودھویں کے چاند کو ہر ایک اپنی جگہ سے دیکھتا ہے۔ 
( بخاری ، مسلم )

ارشاد باری تعالی ہوا
کچھ مونہہ اس دن تر و تازہ ہوں گے اپنے رب کو دیکھتے (ہوں گے
(القیامتہ : ۲۲ ، ۲۳، کنز الایمان )

#
جہنم اللہ عزوجل کے قہر و جلال کا مظہر ہے

ارشاد باری تعالی ہے 
(ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ، تیار رکھی ہے کافروں کے لیے)
(البقرہ : ۲۴)

وہ خواب کہ دیکھا نہ کبھی ، لے اڑا نیندیں

ہر چند سہارا ہے ، تیرے پیار کا دل کو
رہتا ہے مگر ، ایک عجب خوف سا دل کو

وہ خواب کہ دیکھا نہ کبھی ، لے اڑا نیندیں
وہ درد کہ اٹھا نہ کبھی ، کھا گیا دل کو

یاں سانس کا لینا بھی ، گذر جانا ہے جی سے
یاں معرکہِ عشق بھی ، اک کھیل تھا دل کو 

وہ آئیں تو حیراں ، وہ جائیں تو پریشاں
یارب کوئی سمجھائے ، یہ کیا ہوگیا دل کو

 

میری روح قبض کرلو،میں سونا چاہ رہا ہو

میں تھک گیا ہوں،کتنا نڈھال ہو گیا ہوں
میری روح قبض کرلو،میں سونا چاہ رہا ہو

 

main toot jaunga, aise jese maut se takrake zindagi dum tor deti hai!!

 

یہ ہے زندگی

زندگی یہ زندگی یہ زندگی
ہاں یہ ہی ہے زندگی
بوہوت کچھ سہنا پڑتا ہے  اس میں. بوہت کچھ سہنا پرے گا اس میں.
jo me ne seh lya ha.
mylife

mylife

 

 

 

jo seh rehi hu.

mylife

mylife

Gates of Happiness are Open

“For you see, each day I love you moreToday more than yesterday and less than tomorrow.”~ Rosemonde Gerard

“You rose into my life like a promised sunrise, brightening my days with the light in your eyes. I’ve never been so strong. Now I’m where I belong.”~ Maya Angelou

“Love is the master key that opens the gates of happiness.”~ Oliver Wendell Holmes

“In the arithmetic of love, one plus one equals everything, and two minus one equals nothing.”~ Mignon McLaughlin

When you realize you want to spend the rest of your life with somebody, you want the rest of your life to start as soon as possible.  ~Nora Ephron, When Harry Met Sally

s

 

2010 ka akhri din

This is my annual post, the last post of 2010. and here i will sum up, what happened in my life in that year and look ahead to what’s going to happen in 2011. I do this so I can have a handy record that I can get to in seconds.
First month of 2010 was not good, after the month of march that year starts bringing me alot of happiness, in my personal life as well as in my career. Thanks to ALLAH for each and everything.

Many days was very good, few days was bad. this year i got sick 4 times.
This Year, I read almost 52 great Informative books on Islam, Life, and Science.I learn alot from those books. and i have change my life too much, beacuse i have implemented 80% in my life, that i read from books. Books are the best friends of a person. I spend my free time with books.
This year i didnt watch Television. as compared to past years. Only 2% of my time of 2010 i sit infront of tv to watch it.
I spend alot of my time on internet, for reading articles and news all around the world.

This year was nice. and I pray ALLAH, the coming year 2011 bring alot of happiness for my loved one,family, and friends.and take away all our sorrows and problems from our life. Make us powerfull,happy and healthy,wealthy. and A good MUSLIMS as ALLAH says in QURAN. Ameen

کِھلتے دِل،کُھلتے خیال

محبت اِک حسین شے ہے مگر ہم اُسے نہیں جانتےحسن کی تلاش فہم سے ہے مگر ہم اُسے نہیں مانتے

            ہم اِس دُنیا میں آتے ہیں۔ زندگی میں سیکھتے ہیں اور پھر حاصل علم دوسروں کو سِکھا کر حقیقی راہ پر دُنیا سے کنار ہ کشی فرماتے ہیں۔ایسے ہی ہم ہر برس کچھ نیا جاننے کی کوشش میں بہت کچھ اپناتے ہیں۔ آہستہ آہستہ ہم اپنا علم نئی نسل کو منتقل کرتے ہیں۔ زندگی میں ہم جو کچھ پاتے ہیں۔اُس کو بالآخر بانٹ کر جانا ہے، ورنہ ہمارے بعد ورثہ بٹ جاتا ہے۔ ہر وُہ شےءجس کی فطرت بانٹنا ہے، وُہ ہمیں زندگی کی حقیقت کی طرف لیجاتی ہے۔ علم بانٹو، محبت بانٹو، خوشی بانٹو، یہی حقیقی دولت ہے، بانٹو اور بڑھاﺅ۔

            انسان عمر بھر حسن کی تلاش میں رہتا ہے۔ حسن کیا ہے؟ ہر انسان کا اپنا اِک معیار ہے۔ اطمینانِ قلب اگر حسن ہے تو تسکینِ ذہن لطفِ افکار ہے۔ نگاہئِ حسن جس کو ملی، اُسکی دُنیا ہی بدلی۔ حسن ذات سے باہر ہے، کسی شےءکی مرکوزیت میں حسن تو ہو سکتا ہے، ممکن ہے وُہ آپ کا قلبی لگاﺅ ہو۔ قلبی واردات تو آپ کو ذات سے باہر لاتی ہے اور کسی اور ذات کی طرف لیجاتی ہے اور مخلوق خدا سے محبت کرنا سکھاتی ہے۔ خلقِ خداکی محبت آپ کو اللہ کی محبت کا رستہ دکھلاتی ہے۔ اللہ سے محبت کا رشتہ جب جڑ جائے تو خوف خوف نہیں رہتے بلکہ محبت بنتے ہیں۔

            حسن کا تصور ملنا خدا کی بہت بڑی دَین ہے۔ زندگی کی حقیقت میں خوبصورت رنگ انسان کے دِلکش رویے اور خیالات ہیں جو اَمن اور سکون قائم رکھتے ہیں۔

            انسان اپنی زندگی آئیڈئیل تھیوری یا ماڈل کے تحت گزارنا چاہتا ہے۔ ہمارے فلسفہ زندگی کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ ہم خامی کا خانہ اپنی تھیوری میں نہیں رکھتے۔ اپنے پیش کردہ ماڈل میں اگر حقیقی رنگ بھر دیں تو زندگی کو زندگی کے سبق سے سیکھا جاسکتا ہے۔

            ہم تنقیدی نگاہیں رکھتے ہیں، حالات کی بہتری حوصلہ اور رہنمائی سے ہوتی ہے۔ ہم زندگی کو بڑے ہی محدود کینوس سے دیکھتے ہیں۔ انسانی چہرہ پر موجود تاثرات کو نہیں سمجھتے۔ شک کی نگاہ سے دوسروں کو دیکھتے ہیں۔ مگر غیر جانبدار ہو کر شک دور نہیں کرتے ۔

            اکثر لوگ خود کو سیکولر کہتے ہیں۔ افسوس! میرا معاشرہ دو متضاد انتہاپرست گرہوں کی ضد کی شدت کے باعث بَٹ رہا ہے۔ کون جانے! سیکولر بننے کے لیے خود کو پہلے صوفی بنناہوتا ہے۔ لفظ صوف سے مراد کسی کے متعلق بغض ، حسد، کینہ اور نفرت دِل میں نہ رکھنا۔ اپنی مرضی مار دینا، اپنوں کی مرضی چھوڑ دینا اور حق بات کا بلا تعصب فیصلہ کرنا۔ اصل میں صوف ہے۔

            ہمارے رویے اس لیے بھی بگڑتے ہیں ہم چھوٹے دِل رکھتے ہیں اور بند نگاہوں کی طرح تنگ ذہنوں میں اُلجھے رہتے ہیں۔

            انسانی فطرت ہے کہ وُہ خواہشات رکھتا ہے، ایسے ہی خواہشات کی تکمیل غلطیوں کا مرتکب بناتی ہے۔ فطری خواہشات انسان کی معصوم خواہشات ہوتی ہے۔ ایسے ہی فطرتی غلطیاں معصوم انسانی غلطیاں ہوتی ہے۔ معصوم غلطیوں کو درگزر کریں بوقت ضرورت مصنوعی سرزنش سے غلطی کا احساس ضرور دلائیںمگر دِل کی میل صاف رکھیں۔ دِل بڑھنے لگے گا۔ برداشت آجائے گی۔

            زندگی کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھے مگر حالات کو دوسروں کی نگاہ سے دیکھے۔ ہم اختلافی مسائل کے بارے میں ایک رائے رکھتے ہیں۔ جن کے بارے میں آپ مخصوص سوچ (نفرت)رکھتے ہیں۔ اُن سے اُنکے خیالات بھی تو جانئے۔ تعصب سے پاک غیر جانبدارانہ سوچ ذہن کھولتی ہے۔ بڑھتے دِل، کُھلتے ذہن؛ بصیرت پاتے ہیں۔

گزشتہ برس میرے لفظوں نے اشعار کا روپ دھارانہیں جانتا ، کس کی دُعا سے میرا خیال خوب بڑھا

            قیادت کو بصیرت کو چاہیے۔ خیالات ذاتیات میں محو ہو جائیں تو خیالات کا محور بصیرت سے محروم ہوتا ہے۔ قیادت حالات کے بھنور میں دھنستی رہتی ہے۔

            حسن زندگی کو توازن دیتا ہے۔ زندگی گزارنا کوئی آئیڈئیل تھیوری نہیں۔ دوسروں کو سمجھ کر ردعمل یوں دینا کہ معاملات سلجھ جائیں۔ خوبی کو خامی کے ساتھ قبول کرنا، حسنِ سلوک ہے۔ دوست ہماری مرضی کے مطابق نہیں ہوتے۔ ہم اُن کو خامیوں سمیت قبول کرتے ہیں۔ اُنکی خامی ہمارے لیے خامی نہیں رہتی۔

            حسن الجبرا کی ایک ایسی مساوات ہے، جس کو ہم مساوی رکھتے ہیں۔ مصور تصویر میں متوازن رنگ بھرتا ہے، شاعر شعر کا وزن مدنظر رکھتاہے، مصنف جملوں میں تواز ن لاتا ہے، گلوگار آواز کے اُتار چڑھاﺅ میں توازن رکھتا ہے، متواز ن غذا صحت لاتی ہے، متوازن گفتگو سوچ کو نکھارتی ہے، متوازن عمل شخصیت بناتے ہیں۔ انسان کا حسن عمل اور سوچ کا توازن ہے تو انسانی شخصیت خوبیوں اور خامیوں کا مرقع ہے۔ ایسے ہی معاشرتی مساوات معاشرے کا حسن ہے۔

            اپنی زندگی کی نئی بہار کے موقع پر گزشتہ برس کی وُہ نئی نگاہ پیش کی۔ جو مجھ کو سلطان شہاب الدین غوریؒ سے عقیدت مندانہ ملاقات کے دوران ملی۔

لوگ اُنکے مرقد کو صرف ایک مقبرہ سمجھتے ہیں۔راہ ِ عقیدت میں جو نگاہ ملی، ہم اُس کومزار مانتے ہیں۔

            یا اللہ آج میری زندگی کا نیا برس شروع ہوچکا ہے، ہم سب پر اپنا کرم فرمانا۔ نئی راہوں کے نئے دروازے کھولنا۔ ہمارے خیالات میں حسن کی نگاہ اور محبت کا جذبہ برقرار رکھنا۔ ہماری راہ منزل میںاپنی رہنمائی جاری رکھنا۔ ہم سب کو اعلیٰ اخلاق کا نمونہ بنانا۔ آپ سب کو کل سے شروع ہونے والا نیاعیسوی سال نیک تمناﺅں اور دُعا کے ساتھ مبارک ہو۔

 

 

My Beloved

My peace, O my brothers and sisters, is my solitude,
And my Beloved is with me always,
For His love I can find no substitute,
And His love is the test for me among mortal beings,
Whenever His Beauty I may contemplate,
He is my “mihrab”, towards Him is my “qiblah”
If I die of love, before completing satisfaction,
Alas, for my anxiety in the world, alas for my distress,
O Healer (of souls) the heart feeds upon its desire,
The striving after union with Thee has healed my soul,
O my Joy and my Life abidingly,
You were the source of my life and from Thee also came my ecstasy.
I have separated myself from all created beings,
My hope is for union with Thee, for that is the goal of my desire.

معاف کردینا ہی مکارمِ اخلاق میں سے ہے

سعدی کہتے ہیں کہ ہارون الرشید کا لڑکا ابا کے سامنے شکایات لایا اور کہا کہ مجھے فلاں سپاہی کے لڑکے نے ماں کی گالی دی ہے۔ ہارون  نے ارکان دولت سے پوچھا کہ کیوں بھئی کیا سزا ہونی چاہیئے! کسی نے کہا کہ اسکو قتل کردینا چاہیئے۔ خلیفہ کی بیوی کو اور سلطنت اسلام کی خاتون اول کو اس نے گالی دی ہے۔ کسی نے کہا زبان کاٹ دینی چاہیئے۔ کسی نے کہا اسکا مال وجائیداد ضبط کرلینا چاہیئے۔ کسی نے کہا اسکو جلا وطن کردینا چاہیے یا کم سے کم جیل کی سزا۔

نے بیٹے کو کہا بیٹا تم معاف کردو تو بڑا بہتر ہے۔ گالی دینے والے نے اپنا منہ گندا کیا اس میں تمہارا کیا نقصان؟ تمہاری ماں کو گالی لگی نہیں۔ اگر کسی کی ماں ایسی نہیں ہے جیسے اس نے کہا تو اسکا منہ گندا ہوا‘ اسکی ماں کا کیا بگڑا۔ تو بہتر یہی ہے‘ مکارمِ اخلاق یہی ہے کہ تم اسکو معاف کردو اور اگر تم سے برداشت نہیں ہوا تو وجزاء سیئة سیئة بمثلھا برائی کا بدلہ اتنی برائی ہے۔ تم بھی اکسی ماں کو گالی دے دو لیکن شرط یہ ہے کہ جتنی اس نے دی تھی اتنی دو اس سے زیادہ نہیں۔ کیونکہ اگر تم اس سے زیادہ دوگے تو تم ظالم بن جاؤ گے اور تمہارا مخالف مظلوم بن جائیگا۔

I am happy

I am happy because I always choose the right moment. I am happy because I am a good listener. I am happy because I keep my voice down. I am happy because I do not try to convince others. I am happy because I do not complain. I am happy because I do not do two things at the same time. I am happy because I never think of two objects at the same time. I am happy because I have realised the truth that the most important thing in my life is self-improvement. I am happy because I unreservedly accentuate the good in others. I am happy because I have considerably cut down on my desiring needs. I am happy because I follow my thought-control programme every day. I am happy because I never quit. I am happy because every day I purify my heart by offering my heart of gratitude to the Absolute Supreme. I am happy because I know that my love of purity works wonders.

میں زندہ ہوں .

Jab dard puranay ho baithay..
Jab `yaad ka jugnu`raakh hua
Jab aankh main aaansoo barf huay
Jab zakhm se dil manoos hua
Jab tees ko chubhna bhool gia
Tab mujh peh khula main zinda hun!!!
Phir dil ko dharhakna yaad aya!!!
Jab karb ki lambi rahon main
Ahsas k baal safaid huay
Ya soch ki sarma dhoopon main
Alaam ka mevah khushk hua
Jab aankhain ‘be sailaab’huin
Jab neendain Aandhi ho baithin
Jab khawabain b ‘be khawab’ huin
Jab chaand charha be dardi ka
jab tanhaii ka seena b
Ser rakhnay ki aagosh laga
Jab rait peh likhi yaadon ko
Be mehr hawa ne cheen lia
Jab hosh ki kachi dewarain
Tasweeron se azad huin
Jab ‘yaad ruttain’ be dad huin
Tab mujh peh khula main zinda hun!!!
Phir dil ko dharakna yaad aya!!!

Tab aankhain kuch abaad huin
Jab mujh peh khula main zinda huun…
Ahsas ka bachpan jaag para
Phir jazbay be taqweem huay!!
Phir waqt ne kuch angrhaii li..
Phir soch ki qabar se dhool urhi
Phir piyas ka barzakh bhool gya!
Ik hijr se kia azad huay?
So hijr naye ejaad huay!!
Phir ik nazar siyyad bani
Ik nazar ka taair said hua
Phir ashk main darya qaid hua!!
Phir dharkan main bhonchal paray
Phir ishq ka jogi gallion main…
Taqdeer kay saamp utha laya!!

Phir hosh ka jungle sabz hua
Phir `shoq_e_darinda` jag utha..
Phir zulf ka tewar shaam banay
Us shaam main phir mehtaab charha
Phir hont ki larzish, geet bani..
Phir sans ka naam saba thehra!!
Phir sher,shaur ka wird hua..
Phir zanjeerain,zawer thehrin..
Phir taqreerain inaam huin
Phir khoon se likhay jazbon ki

Kuch tehreerain neelam huin!!
Phir dard “Zulaikhaan”ban baitha..
Phir qurb ka karb jawan hua
Phir mujh pe khula main zinda huun!!!!

Kuch wasl shabain `shab khaiz`huin
Kuch hijr ki nabzain tez huin
Jab qaid ko taza umr mili..
Us qaidi umr k bakhton ne..
Ik shaam_e-sahuur se pooch lia
Mehjuur hi rehna tha…to hamain
wo pichla hijr hi kafi tha!!
Gar qaid hi ja` apnani thi..
Kiun pichlay jaal ko chora tha??
Kis ahed peh pinjra tora tha??
Jab jaal teri qamzori thay…
Siyyad ko kiun badnaam kia??
Ik soch raha huun muddat se …
Kiun mujh pe khula main zinda huun ???
KIun dil ko dharakna yaad aya

 


زندگی جینے میں اور گزارنے میں بہت فرق ہے۔

زندگی میں بہت سی باتیں سمجھ آنے کے باوجود سمجھ سے بالا تر ہوتی ہیں ۔ارد گرد کے ماحول اور حالات ہمیں مستقبل  کی پیش بندی کی تحریک پیدا کرتے ہیں ۔ ایسا مستقبل جو سنہرے خواب کی مانند ہوتا ہے ۔ مگر تعبیر ضروری نہیں کہ سنہری ہو ۔ہر دن کا آغاز  ایسی ہی سوچوں کی بنیاد سے ہوتا ہے ۔جو سورج ڈھلنے کے ساتھ  اپنے منطقی انجام تک پہنچ جاتا ہے ۔اور ہررات کا آغاز ویسا ہی پر سکون ہوتا ہے ۔ جیسا نیند کی آغوش میں جانے سے پہلے بستر پر دن بھر کا کسا بدن ڈھیلا ہوتے ہی سوچوں کے سمندر  سے غوطے کھانے کے بعد تکیے کے سہارے پر ختم ہوتا ہے ۔
ایک زندگی ایک ہی کام سے جس انجام کا سامنا کرتی ہے ۔دوسرے کو ویسے ہی کام کے آغاز کی ترغیب دیتی ہے ۔زندگی جینے اورزندگی گزارنے میں وہی فرق ہے جو جاگتے اور سوتے ہوئے انسان میں ہے ۔ سونے کو جاگنے سے کسی بھی  صورت  فوقیت اور اہمیت حاصل نہیں ۔جاگتے ہوئے سوچ میں تغیر و تبدل بس میں ہے مگر سوتے میں بس سے باہر ۔ بلکہ بعض اوقات ایسے حیرت انگیز اورناقابل یقین  خواب چلے آتے ہیں ۔جن کی یاد دن بھر کے جاگنے پر بھاری ہو جاتی ہے ۔اورحقیقی زندگی میں خوابی کیفیت ہیبت کا باعث ہوتی ہے ۔
کامیابی کا زینہ ہمیشہ اوپر کی طرف رخ رکھتا ہے ۔جہاں توانائی کا استعمال قدرے زیادہ اور خطرات  بھی کم نہیں ہوتے ۔ جنہیں منزل پر پہنچ کر سستاتے ہوئے پریشان ہوتے ہیں ۔وہ خطرات سے بچتے  رینگتے ہوئے یہاں تک پہنچے ہوتے ہیں ۔ کھلے بادبانوں اور بہتے پانیوں کے رخ پہ چلتے ہوئے ۔
جنہیں زندگی میں جینا ہوتا ہے ۔ وہ تھپیڑوں کی پرواہ نہیں کرتے ۔ ہواؤں کا رخ  کوئی بھی ہو ۔پانی کا بہاؤ اور ٹھہراؤ سے گھبراتے نہیں ۔طاقت کے زور پہ زندگی کی ناؤ چلاتے ہیں ۔
ارد گرد پھیلے کھلے حالات و واقعات انسانی سوچ میں طلاطم پیدا کرتے ہیں ۔اور جنگلی گھوڑے کی طرح سرکشی بھی ۔جسے لگام ڈال کر تابع کیا جاتا ہے ۔سرکش مزاج  وفاداری میں بدل جاتا ہے ۔انسانی تخیل سے نکلتے افکار اظہار رائے کا شاہکار تو ہو سکتے ہیں۔ مگر زندگی کی سچائی نہیں ۔جہاں تابعداری تو ہے مگر وفا شعاری نہیں ۔
بلندیاں چھونے کے لئے پستیوں سے  سفر  کا آغاز کرنا ہوتا ہے ۔جہاں صعوبتوں کا سامنا       بھی رہتا ہے  ۔ شاہ و گدا پر مبنی معاشرتی کہانیاں  صدیوں سے لکھی،پڑھی اور سنائی جا رہیں ہیں ۔مگرسوچ بن کر وہی زندہ رہتے ہیں ۔ جو ناکامی کو قسمت کا کھیل سمجھ کر  ہتھیار نہیں ڈالتے ۔بلکہ بار بار کی کوشش سے آگے بڑھنے پر یقین رکھتے ہیں ۔ ایمان کا تعلق فتح   اور  شکست  سے ہمکنار ہونے میں نہیں ۔بلکہ  بار بار کوشش سے آگے بڑھنے میں ہے ۔جو دل برداشتہ ہو  کر رک جائیں  تو رکنا تقدیر نہیں ۔بلکہ فیصلہ  حق میں یا مخالف ہوناہے ۔
رک جانے کو جو زندگی کا تسلسل جانتے ہیں ۔جہد مسلسل سے نظریں چراتے ہیں ۔ خوش نصیب ہیں وہ جن تک اللہ کی رضا کامیابی کی صورت میں پہنچی ۔ کم عقل ہیں وہ  جو بار بار کوشش سے بھی رزق میں ایک حد سے آگے نہ بڑھ سکے ۔ مگر خواہشوں کو لگام نہ دے سکے ۔ جنہیں دیکھایا جاتا ہے انہیں سمجھایا جاتا ہے ۔جنہیں دیکھایا نہیں جاتا انہیں بہکایا بھی نہیں جاتا ۔رزق کی تلاش میں سرگرداں رہنے کا وقت ہوتا ہے ۔اور اسے وہیں تلاش کیا جاتا ہے جہاں سے ملنے کی امید ہوتی ہے ۔غروب آفتاب کے بعدتو  سب چھپا دیا جاتا ہے ۔
منزلیں وہیں ٹھہرائی جاتی ہیں  جہاں لنگر گرائے جاتے ہیں ۔فیصلوں کے وہ محتاج ہوتے ہیں جو فکر و شعور سے عاری ہوتے ہیں