“Am I honoring my purpose?”
“Am I in control of my life?”
“Is my career going in the right direction?”
“Do I have enough cash in the bank?”
“Am I doing enough for the people around me?”
“Am I honoring my purpose?”
“Am I in control of my life?”
“Is my career going in the right direction?”
“Do I have enough cash in the bank?”
“Am I doing enough for the people around me?”
Another misconception about the month of Muharram is that it is an evil or unlucky month, for Sayyidna Husain, Radi-Allahu anhu, was killed in it. It is for this misconception that people avoid holding marriage ceremonies in the month of Muharram. This is again a baseless concept, which is contrary to the express teachings of the Holy Quran and the Sunnah. If the death of an eminent person on a particular day renders that day unlucky for all times to come, one can hardly find a day of the year free from this bad luck because every day is associated with the demise of some eminent person. The Holy Quran and the Sunnah of the Holy Prophet, Sall-Allahu alayhi wa sallam, have liberated us from such superstitious beliefs.
Q. Could you please explain whether any function, particularly weddings, could be held in the month of Muharram, particularly its first 8 or 9 days?
A. Some people hold a notion that it is not permissible to arrange a marriage or make a marriage contract in the month of Muharram, particularly its first ten days. Some extend this to even arranging the waleemah, or the dinner after marriage, in this period. There is nothing in the Qur’an or the Sunnah to confirm this. The Muharram month is the same as the rest of the year. Muslims do not allow any aspect of omen to interfere with their arrangements or plans. They rely on God in all matters, and reliance on God is sufficient to remove any thoughts of bad omen. The Prophet (peace be upon him) in fact spoke against notions of bad omen. They have no substance. Hence, it is perfectly permissible to arrange a marriage in the month of Muharram and also to arrange the waleemah or any other function. In fact marriage can be contracted and organized at any time, except when a person is in the state of consecration, or ihraam, during his pilgrimage or his Umrah. Other than this, there is no restriction. Aljazeerah
اسلام نے مرد کو ’’قَوَّام‘‘(گھر کا نگران اور کفيل) اور عورت کو ’’ريحان‘‘(پھول) قرار ديا ہے۔ نہ يہ مرد کي شان ميں گستاخي ہے اور نہ عورت سے بے ادبي، نہ يہ مرد کے حقوق کو کم کرنا ہے اور نہ عورت کے حقوق کي پائمالي ہے بلکہ يہ ان کي فطرت و طبيعت کو صحيح زاويے سے ديکھنا ہے۔
امور زندگي کے ترازو ميں يہ دونوں پلڑے برابر ہيں۔ يعني جب ايک پلڑے ميں (عورت کي شکل ميں) صنف نازک، لطيف و زيبا احساس اور زندگي کے ماحول ميں آرام و سکون اور معنوي زينت و آرائش کے عامل کو رکھتے ہيں اور دوسرے پلڑے ميں گھر کے مدير، محنت و مشقت کرنے والے بازوں اور بيوي کي تکيہ گاہ اور قابل اعتماد ہستي کو (شوہر کي شکل ميں) رکھتے ہيں تو يہ دونوں پلڑے برابر ہو جاتے ہيں۔ نہ يہ اُس سے اونچا ہوتا ہے اور نہ وہ اس سے نيچے۔
کتاب کا نام : طلوع عشق
مصنف : حضرت آيۃ اللہ العظميٰ خامنہ اي
مرد
مرد ہر گز يہ خيال نہ کرے کہ چونکہ وہ صبح سے شام تک نوکري کے لئے باہر رہتاہے، اپنا مغز کھپاتا اور تھوڑي بہت جو رقم گھر لاتا ہے تو وہ بيوي سميت اس کي تمام چيزوں حتيٰ اس کے جذبات، احساسات اور خيالات کا بھي مالک بن گيا ہے، نہيں ! وہ جو کچھ گھر لے کر آتا ہے وہ گھر کے اجتماعي حصے اور ذمے داريوں کي نسبت آدھا ہوتا ہے۔ جب کہ دوسرا آدھا حصہ اور ذمہ داري بيوي سے متعلق ہے۔ بيوي کے اختيارات، اس کي سليقہ شعاري اور گھريلو انتظام سنبھالنا، اس کي رائے، نظر، مشورہ اور اس کي باطني ضرورتوں کا خيال رکھنا شوہر ہي کے ذمے ہے۔ ايسا نہ ہو کہ مرد چونکہ اپني غير ازدواجي زندگي ميں رات کو دير سے گھر آتا تھا لہٰذا اب شادي کرنے کے بعد بھي ايسا ہي کرے، نہيں ! اسے چاہيے کہ وہ اپني زوجہ کے روحي، جسمي اور نفسياتي پہلووں کا خيال رکھے۔
قديم زمانے ميں بہت سے مرد خود کو اپني بيويوں کا مالک سمجھتے تھے، نہيں جناب يہ بات ہرگز درست نہيں ہے ! گھر ميں جس طرح آپ صاحبِ حق و اختيار ہيں اسي طرح آپ کي شريکہ حيات بھي اپنے حق اور اختيار کو لينے اور اسے اپني مرضي کے مطابق استعمال کرنے کي مجاز ہے۔ ايسا نہ ہو کہ آپ اپني زوجہ پر اپني بات ٹھونسيں اور زور زبردستي اس سے اپني بات منوا ليں۔ چونکہ عورت، مرد کي بہ نسبت جسماني لحاظ سے کمزور ہے لہٰذا کچھ لوگ يہ خيال کرتے ہيں کہ عورت کو دبانا چاہيے، اُس سے چيخ کر اور بھاري بھرکم لہجے ميں بات کريں، ان سے لڑيں اور ان کي مرضي اور اختيار کا گلا گھونٹتے ہوئے اپني بات کو ان پر مسلط کر ديں۔
کتاب کا نام : طلوع عشق
مصنف : حضرت آيۃ اللہ العظميٰ خامنہ اي
جہاں خداوند متعال نے انساني مصلحت کي بنا پر مرد و عورت ميں فرق رکھا ہے اور يہ فرق مرد کا نفع يا عورت کا نقصان نہيں ہے۔ لہٰذا مياں بيوي کو چاہيے کہ گھر ميں دو شريک اور ايک دوسرے کے مدد گار اور دوستوں کي مانند زندگي گزاريں۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیوی کے حق کی اہمیت کو اپنی سنت مبارکہ سے واضح فرمایا۔ آپ کا طریقہ مبارک یہ تھا کہ کسی سفر یا غزوہ پر تشریف لے جاتے تو بیویوں میں قرعہ ڈالتے اور جس کے نام قرعہ نکل آتا، اُسے ساتھ لے جاتے۔
بخاري، الصحيح، کتاب النکاح، باب القرعة بين النساء، 5 : 1999، رقم : 4913
ایک رات حضرت عمر رضی اللہ عنہ حسبِ معمول شہر میں گشت کر رہے تھے کہ اُنہوں نے ایک عورت کی زبان سے یہ شعر سنے :
تطاول هذا الليل تسري کواکبه
وارَّقني ان لاضجيع ألاعبه
فواﷲ لولا اﷲ تخشي عواقبه
لَزُحزِحَ من هذا السرير جوانبه
(یہ رات کس قدر لمبی ہو گئی ہے۔ اور اس کے کنارے کس قدر چھوٹے ہو گئے ہیں اور میں رو رہی ہوں کہ میرا شوہر میرے پاس نہیں ہے کہ اس کے ساتھ ہنس کھیل کر اس رات کو گزار دوں۔ خدا کی قسم خدا کا ڈرنہ ہوتا تو اس تخت کے پائے ہلا دیئے جاتے۔ )
سيوطي، تاريخ الخلفاء : 139
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سُن کر افسوس کیا اور فوراً اپنی صاحبزادی اُم المؤمنین حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا کے پاس گئے اور پوچھا بیٹی! ایک عورت شوہر کے بغیر کتنے دن گزار سکتی ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا : ’’چار ماہ۔‘‘ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ حکم جاری کر دیا کہ کوئی شخص چار ماہ سے زیادہ فوج کے ساتھ باہر نہ رہے۔ خود قرآن حکیم نے یہ معیاد مقرر کی ہے :
لِّلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِن نِّسَآئِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ فَإِنْ فَآؤُوا فَإِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌO
’’جو لوگ اپنی بیویوں کے قریب نہ جانے کی قسم کھالیں، ان کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے۔ پھر اگر وہ (اس مدت کے اندر) رجوع کر لیں (اور آپس میں میل ملاپ کرلیں) تو اللہ رحمت سے بخشنے والاہےo‘‘
اس تحریر میں ہم نے مایوسی کے خاتمے کی جو تجاویز پیش کی ہیں، ان کو یہاں مختصراً بیان کیا جارہا ہے اور اس کے ساتھ کچھ نئی تجاویز بھی پیش کی جارہی ہیں۔ جو بھائی یا بہنیں مایوسی اور ڈپریشن کا شکارہوں، ان سے گذارش ہے کہ وہ تحریر کے اس حصے کو اپنے سامنے والی دیوار پر چسپاں کرلیں یا پھر اپنے پرس میں رکھ لیں اور جب بھی مایوسی حملہ آور ہو تو محض ان تجاویز کو ایک نظر دیکھ ہی لیںتو انہیں مایوسی سے نجات کا کوئی نہ کوئی طریقہ سمجھ میں آ ہی جائے گا۔
اگر آپ اس تحریر کو پڑھ کر کوئی فائدہ محسو س کریں تو مصنف کے لئے دعا کرنے کے ساتھ ساتھ اسے اپنے فیڈ بیک سے بھی مطلع فرمائیے تاکہ آپ کے تجربات کو شامل کرکے اس تحریر کو اور بہتر بنایا جاسکے۔ اگر کوئی تجویز آپ کو نامعقول محسوس ہو تو اس سے بھی ضرور آگاہ فرمائیے تاکہ کسی تک غلط بات پہنچانے سے بچا جاسکے۔ اگر ہوسکے تو اس تحریر کے مندرجات کو اپنے انداز میں ان بھائیوں اور بہنوں تک بھی پہنچائیے جو پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تاکہ امید کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر طرح مایوسیوں اور پریشانیوں سے بچا کر ہر مصیبت کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے اور ہم پر اپنی رحمتیں نازل کرتا رہے۔
source : minhajbooks
(البدايه والنهاية جلد 3، صفحه 214)
’’الحمدللہ! میں اس کی حمد کرتا ہوں اور اس سے امداد طلب کرتا ہوں، ہم اپنے نفس کے فتنوں اور اپنے اعمال کی برائیوں سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں، اللہ جس کو گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں (وہ واحد ہے اس کا کوئی شریک نہیں) سب سے بہتر کلام اللہ تعالیٰ کی کتاب (قرآن) ہے، اس نے فلاح پائی جس کے قلب کو اللہ تعالیٰ نے زینت بخشی اور اسے کفر کے بعد اسلام میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائی اور اسے اختیار بخشا کہ وہ ہدایات اسلام کے علاوہ دنیا کے تمام انسانوں کی باتوں کو رد کردے۔ کلام الہی سب سے زیادہ بہتر کلام ہے، اس کی تبلیغ کرو، جسے اللہ چاہے اسے تم بھی چاہو، اللہ کو اپنے دل کی تمام گہرائیوں سے چاہو، اللہ کے کلام اور اس کے ذکر کو نہ الٹ پلٹ کرو نہ اپنے قلوب میں اس کی کمی آنے دو، جسے اللہ تعالیٰ نے اختیار بخشا اور اس کے قلب کو مصفا بنایا اس نے (گویا) اس کے اعمال کو بھی نیک بنایا اور اپنے تمام بندوں میں اسے بھلائی کے لیے چن لیا، بہترین بات یہ ہے کہ کوئی دوسروں کو حرام و حلال میں فرق کرنا سکھائے۔ اللہ کی عبادت کرو، کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ، تقوی کو اتنا اختیار کرو جتنا اس کا حق ہے، جو کچھ منہ سے نکالویعنی جو بات کرو) اس میں اللہ کو حاضر وناظر جان کر صداقت کا سب سے زیادہ خیال رکھو، آپس میں جو معاہدہ کرو اسے خوشنودی خداوند کے لئے پورا کرو، کیونکہ جو معاہدات پورے نہیں کرتے ان سے اللہ ناراض ہوتا ہے۔
تمام تعریفیں صرف خدا ہی کے لیے ہیں۔ میں اس کی تعریف بیان کرتا ہوں۔ اسی سے مدد کا خواستگار ہوں، اسی سے بخشش طلب کرتا ہوں اور اس کے منکر کا مخالف ہوں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی دوسرا خدا نہیں ہے۔ صرف وہی ایک خدا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے خاص بندے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں، جنہیں خدا نے ہدایت، نور اور سرتاپا نصیحت بنا کر مبعوث فرمایا۔ جب کہ پیغمبروں کو دنیا میں آئے ہوئے کافی وقفہ ہوچکا تھا، علم کم ہوچکا تھا، گمراہی عام ہوچکی تھی۔ جہالت پر طویل زمانہ گزرچکا تھا، قیامت اور آخرت کے قرب کا زمانہ آگیا تھا۔ پس جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی وہ ہدایت پاگیا اور جس نے ان دونوں کی نافرمانی کی وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا اور کھلی گمراہی میں مبتلا ہوگیا۔
میں تمہیں زہد و تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت کرتا ہوں کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کو اس سے بہتر نصیحت نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد کا درجہ یہ ہے کہ بھائی ایک دوسرے کو آخرت کی ترغیب دیں اور اسے تقویٰ کی ہدایت کریں۔ پس خدا نے جس بات سے تمہیں بچنے کا حکم دیا ہے اس سے بچو۔ اس سے بہتر اور کوئی نصیحت نہیں ہے اور نہ اس سے افضل اور کوئی ذکر ہے۔ حقیقی تقویٰ اس کا ہے جو دل میں اپنے رب کا خوف اور اخروی امور کی صداقت کا جذبہ لیے ہوئے اس پر عمل کرے اور جو شخص اپنے اور اپنے خدا کے درمیان معاملہ کو ظاہر و باطن میں ٹھیک رکھے اور اس سے صرف اللہ کی خوشنودی کی نیت رکھے تو یہ عمل دنیا میں اس کے ذکر خیر کا باعث اور موت کے بعد ذخیرہ آخرت ہوگا۔ جس روز انسان اپنے پچھلے اعمال کا محتاج ہوگا اور اس کے سوا جو کچھ ہوگا اس کے متعلق وہ خواہش کرے گا کہ کاش اس کے اور اس کے عمل کے درمیان طویل مدت کا فاصلہ ہوتا۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے عذاب سے بھی ڈراتا ہے ساتھ ہی وہ اپنے بندوں پر بہت مہربان بھی ہے۔ اللہ اپنے قول میں صادق اور اپنے وعدہ کو پورا کرنے والا ہے، اس کا ارشاد ہے : ’’ما یبدل القول لدی وما انا بظلام للعبید،،
پس اے لوگو اپنے دنیوی و اخروی سب امور میں ظاہر و باطن میں اللہ سے ڈرو کیونکہ جو خدا سے ڈرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی برائیوں کا کفارہ کردیتا ہے اور اس کے اجر میں اضافہ فرما دیتا ہے جو خدا سے ڈرتا ہے وہ عظیم الشان کامیابی حاصل کرتا ہے۔ اللہ سے تقویٰ انسان کو خدا کے غضب اور ناراضگی سے محفوظ رکھتا ہے خدا کا تقویٰ متقیوں کے چہروں کو سفید و منور رکھے گا۔ اور ان سے رب کو راضی کردے گا۔ ان کے مراتب بلند کر دے گا۔
اے لوگو! اپنا اپنا حصہ حاصل کرلو اور اللہ کے معاملہ میں زیادتی سے کام نہ لو۔ اللہ تعالی نے تمہیں اپنی کتاب کی تعلیم دی اور تمہاری نجات کے لیے ایک طریقہ مقرر فرما دیا تاکہ وہ اس کی تصدیق کرنے والوں اور اس کے جھٹلانے والوں کو جان لے۔ پس جس طرح خدا نے تم سے بھلائی کی ہے تم بھی بھلائی کرو۔ خدا کے دشمنوں سے تم بھی عداوت رکھو۔ اس کی راہ میں جہاد کا حق پوری طرح ادا کرو۔ اس نے تمہیں اسلام کے لیے منتخب فرمایا ہے۔ اور تمہارا نام مسلمان رکھا ہے تاکہ وہ جسے ہلاک کرے اسے قطعی دلیل کے ساتھ ہلاک کردے اور جسے زندہ رکھے اسے دلیل کے ساتھ زندہ رکھے۔ خدا کے سوا کائنات میں کوئی اور طاقت نہیں ہے۔ پس تم لوگ اللہ کا ذکر کثرت سے کیا کرو اور آخرت کے لیے نیک عمل کرتے رہو۔ کیونکہ جس نے اپنے اور خدا کے درمیان کا معاملہ ٹھیک کرلیا تو خدا اس کے اور لوگوں کے درمیان ہونے والے معاملات کے لیے کافی ہوگا۔ اس لیے کہ اللہ لوگوں پر حکم چلاتا ہے لوگ اس پر حکم نہیں چلاتے اور اللہ ہی لوگوں کے معاملات کا مالک و مختار ہے۔ لوگ اس کے معاملات کے مختار نہیں۔ اللہ بہت بڑا ہے اور کائنات میں کوئی طاقت سوائے خدائے عظیم کی طاقت کے نہیں ہے۔
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا ، عام دیدار یار ہو گا
سکوت تھا پردہ دار جس کا ، وہ راز اب آشکار ہوگا
گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہان مے خانہ ، ہر کوئی بادہ خوار ہو گا
کبھی جو آوارۂ جنوں تھے ، وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خارزار ہو گا
سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا ، پھر استوار ہو گا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے ، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا
کیا مرا تذکرہ جوساقی نے بادہ خواروں کی انجمن میں
تو پیر میخانہ سن کے کہنے لگا کہ منہ پھٹ ہے ، خوار ہو گا
دیار مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو ، وہ اب زر کم عیار ہو گا
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جوشاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ، ناپائدار ہو گا
سفینۂ برگ گل بنا لے گا قافلہ مور ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہو گا
چمن میں لالہ دکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلی کلی کو
یہ جانتا ہے کہ اس دکھاوے سے دل جلوں میں شمار ہو گا
جو ایک تھا اے نگاہ تو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا
یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہو گا
کہا جوقمری سے میں نے اک دن ، یہاں کے آزاد پا بہ گل ہیں
توغنچے کہنے لگے ، ہمارے چمن کا یہ رازدار ہو گا
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں ، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا
یہ رسم بزم فنا ہے اے دل! گناہ ہے جنبش نظر بھی
رہے گی کیا آبرو ہماری جو تو یہاں بے قرار ہو گا
میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شررفشاں ہوگی آہ میری ، نفس مرا شعلہ بار ہو گا
نہیں ہے غیر از نمود کچھ بھی جو مدعا تیری زندگی کا
تو اک نفس میں جہاں سے مٹنا تجھے مثال شرار ہو گا
نہ پوچھ اقبال کا ٹھکانا ابھی وہی کیفیت ہے اس کی
کہیں سر رہ گزار بیٹھا ستم کش انتظار ہو گا
I saw myself in a wide green garden, more beautiful than I could begin to understand. In this garden was a young girl. I said to her, “How wonderful this place is!”
“Would you like to see a place even more wonderful than this?” she asked.
“Oh yes,” I answered. Then taking me by the hand, she led me on until we came to a magnificent palace, like nothing that was ever seen by human eyes. The young girl knocked on the door, and someone opened it. Immediately both of us were flooded with light.
Only Allah knows the inner meaning of the maidens we saw living there. Each one carried in her hand a serving-tray filled with light. The young girl asked the maidens where they were going, and they answered her, “We are looking for someone who was drowned in the sea, and so became a martyr. She never slept at night, not one wink! We are going to rub funeral spices on her body.”
“Then rub some on my friend here,” the young girl said.
“Once upon a time,” said the maidens, “part of this spice and the fragrance of it clung to her body — but then she shied away.”
Quickly the young girl let go of my hand, turned, and said to me:
“Your prayers are your light;
Your devotion is your strength;
Sleep is the enemy of both.
Your life is the only opportunity that life can give you.
If you ignore it, if you waste it,
You will only turn to dust.”
Then the young girl disappeared.
My Greatest Need is You
Your hope in my heart is the rarest treasure
Your Name on my tongue is the sweetest word
My choicest hours
Are the hours I spend with You —
O Allah, I can’t live in this world
Without remembering You–
How can I endure the next world
Without seeing Your face?
I am a stranger in Your country
And lonely among Your worshippers:
This is the substance of my complaint.
My peace, O my brothers and sisters, is my solitude,
And my Beloved is with me always,
For His love I can find no substitute,
And His love is the test for me among mortal beings,
Whenever His Beauty I may contemplate,
He is my “mihrab”, towards Him is my “qiblah”
If I die of love, before completing satisfaction,
Alas, for my anxiety in the world, alas for my distress,
O Healer (of souls) the heart feeds upon its desire,
The striving after union with Thee has healed my soul,
O my Joy and my Life abidingly,
You were the source of my life and from Thee also came my ecstasy.
I have separated myself from all created beings,
My hope is for union with Thee, for that is the goal of my desire.
سعدی کہتے ہیں کہ ہارون الرشید کا لڑکا ابا کے سامنے شکایات لایا اور کہا کہ مجھے فلاں سپاہی کے لڑکے نے ماں کی گالی دی ہے۔ ہارون نے ارکان دولت سے پوچھا کہ کیوں بھئی کیا سزا ہونی چاہیئے! کسی نے کہا کہ اسکو قتل کردینا چاہیئے۔ خلیفہ کی بیوی کو اور سلطنت اسلام کی خاتون اول کو اس نے گالی دی ہے۔ کسی نے کہا زبان کاٹ دینی چاہیئے۔ کسی نے کہا اسکا مال وجائیداد ضبط کرلینا چاہیئے۔ کسی نے کہا اسکو جلا وطن کردینا چاہیے یا کم سے کم جیل کی سزا۔
نے بیٹے کو کہا بیٹا تم معاف کردو تو بڑا بہتر ہے۔ گالی دینے والے نے اپنا منہ گندا کیا اس میں تمہارا کیا نقصان؟ تمہاری ماں کو گالی لگی نہیں۔ اگر کسی کی ماں ایسی نہیں ہے جیسے اس نے کہا تو اسکا منہ گندا ہوا‘ اسکی ماں کا کیا بگڑا۔ تو بہتر یہی ہے‘ مکارمِ اخلاق یہی ہے کہ تم اسکو معاف کردو اور اگر تم سے برداشت نہیں ہوا تو وجزاء سیئة سیئة بمثلھا برائی کا بدلہ اتنی برائی ہے۔ تم بھی اکسی ماں کو گالی دے دو لیکن شرط یہ ہے کہ جتنی اس نے دی تھی اتنی دو اس سے زیادہ نہیں۔ کیونکہ اگر تم اس سے زیادہ دوگے تو تم ظالم بن جاؤ گے اور تمہارا مخالف مظلوم بن جائیگا۔
گزشتہ صدی سے یہ موضوع مسلسل زیرِ بحث ہے کہ معاشرے میں ” کامیاب عورت“ کون ہوتی ہے؟ مغربی معاشرے میں اُس خاتون کو ”کامیاب عورت“ قرار دیا جاتا ہے جو کامیاب معاش رکھتی ہو، جو مالی طور پر خود مختار ہو اور جو گھر اور کارکی مالک ہو۔ لہٰذا ایسی خواتین اس معاشرے میں رول ماڈل (Role model) کے طور پر جانی جاتی ہیں جو مذکورہ بالا معیار پر پوری اترتی ہوں۔ چنانچہ سابقہ برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی بیوی اور بظاہر چار بچوں کی ماں چیری بلیئر جو ایک کامیاب وکالت کا کیرئیر(Career) رکھتی ہے، اس کا ذکر اکثر رول ماڈل کے طور پر کیا جاتا رہا ہے۔
ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ عورت جو ماں یا بیوی ہونے کے ساتھ کوئی بھی ذریعہ معاش نہیں رکھتی اس کی کوئی اہمیت نہیں یا یہ کہ وہ ایک ناکام عورت ہوتی ہے۔ اسی لیے اُس معاشرے میں جب کسی عورت سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ”آپ کا پیشہ کیا ہے؟“ یا ”آپ کیا کرتی ہیں؟“ تو وہ یہ جواب دیتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتیں ہیں کہ” میں صرف ماں ہوں“ یا ”میں ایک گھریلو خاتون ہوں“۔
اسی طرح مغربی معاشرے میں تذکیر و تانیث کا معاشرے میں کردار کے حوالے سے بہت بڑی تبدیلی آئی ہے کہ ایک خاندان میں عورت کو بھی کمانے کا اتنا ہی حق ہونا چاہیے جتنا کہ مرد کو ۔
جبکہ مغربی حکومتیں کامیاب عورت کے اس معیار کی حوصلہ افزائی کرتی نظر آتی ہیں۔ لہٰذا ایسی عورتوں کی تعریف کی جاتی ہے جو کہ اپنی اس زندگی میں ایک کامیاب کیرئیر حاصل کرچکی ہوں۔ مزید برآں ایسی ماﺅں کے لیے معاشی فوائد کا اعلان بھی کرتیں ہیں جو کام کرنے والوں میں شامل ہونا چاہتی ہیں۔ چنانچہ برطانوی حکومت نے ایک پالیسی بعنوان ”قومی سٹریٹیجی برائے بچوں کی دیکھ بھال“ متعارف کرائی ہے کہ جس کے مطابق بچوں کی دیکھ بھال کے لیے بہت سی جگہیں فراہم کی جائیں گی تاکہ وہ عورتیں جو کام کرتی ہیں اپنے بچوں کو دیکھ بھال کے لیے ان جگہوں پر چھوڑ سکیں۔ اسی طرح انہیں مالی فوائد اور ٹیکس میں چھوٹ بھی دی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے بچوں کی دیکھ بھال پر اٹھنے والوں اخراجات کو برداشت کرسکیں۔ چنانچہ ”Full Time Mothers“ نامی تنظیم کا سربراہ جِل کِربی کہتا ہے کہ ” ایسی عورتوں کے لیے مالی فوائد ہیں جو کام کرتی ہیں لیکن گھر بیٹھی عورتوں کے لیے کوئی مالی فائدہ نہیں“
وہ بھی اب یہ یقین رکھتی ہیں کہ یہ کیرئیر ہی ہے جو کہ عورت کو معاشرے میں مقام اور عزت بخشتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شادی دیر سے کرتی ہیں یا وہ شادی کرتی ہی نہیں کیونکہ وہ شادی کو اپنے کیرئیر کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی ہیں۔ وہ بچوں کی پیدائش بھی دیر سے کرتی ہیں اور تھوڑے بچے پیدا کرتی ہیں یا بچے پیدا ہی نہیں کرتیں۔ اور وہ خواتین جو کوئی کام نہیں کرتیں وہ اپنے معاشرے کی طرف سے مستقل دباﺅ کا شکار رہتی ہیں کہ انہیں بھی کوئی کام کرنا چاہیے۔ چنانچہ وہاں پر موجود مسلمانوں کی بڑی تعداد اس سوچ سے متاثر ہوچکی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بہت سے والدین اپنی بیٹیوں کو کامیاب کیرئیر اختیار کرنے کی ترغیب دیتے ہیں، جبکہ ممکن ہے کہ وہ لڑکی جلدی شادی کرنے کے حق میں ہو اور ماں کا کردار نبھانے کو ترجیح دیتی ہو۔
حدیث نمبر : 5237
حدثنا فروة بن أبي المغراء، حدثنا علي بن مسهر، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة، قالت خرجت سودة بنت زمعة ليلا فرآها عمر فعرفها فقال إنك والله يا سودة ما تخفين علينا، فرجعت إلى النبي صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له، وهو في حجرتي يتعشى، وإن في يده لعرقا، فأنزل عليه فرفع عنه وهو يقول ” قد أذن لكن أن تخرجن لحوائجكن ”.
ہم سے فروہ بن ابی المغراءنے بیان کیا ، کہا ہم سے علی بن مسہر نے بیان کیا ، ان سے ہشام بن عروہ نے ، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ام المؤمنین حضرت سودہ بنت زمعہ رات کے وقت باہر نکلیں تو حضرت عمر نے انہیں دیکھ لیا اور پہچان گئے ۔ پھر کہا اے سودہ ! اللہ کی قسم ! تم ہم سے چھپ نہیں سکتیں ۔ جب حضرت سودہ واپس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کاذکر کیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت میرے حجرے میں شام کا کھانا کھارہے تھے ۔ آپ کے ہاتھ میں گوشت کی ایک ہڈی تھی ۔ اس وقت آپ پر وحی نازل ہونی شروع ہوئی اور جب نزول وحی کا سلسلہ ختم ہو اتو آپ نے فرمایا کہ تمہیں اجازت دی گئی ہے کہ تم اپنی ضروریات کے لئے باہر نکل سکتی ہو ۔
تشریح : آج کے دورِ نازک میں ضروریات زندگی اور معاشی جد وجہد اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اکثر مواقع پر عورتوں کو بھی گھر سے باہر نکلنا ضروری ہو جاتا ہے۔ اسی لئے اسلام نے اس بارے میں تنگی نہیں رکھی ہے، ہاں یہ ضروری ہے کہ شرعی حدود میں پردہ کرکے عورتیں باہر نکلیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مذہبِ اسلام نے کسی غیر محرم کو دیکھنے سے روکا ہے اور نگاہیں نیچی رکھنے کی ہدایت کی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
’’ قل للمؤمنین یغضوا من ابصارهم و یحفظوا فروجهم‘‘
( سورۃ نور۔30)
مسلمان مردوں سے کہدیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔
آیت مبارکہ میں حفاظت فروج سے پہلے نظروں کی حفاظت کا حکم فرما یا ہے، کیونکہ نظروں کی بے احتیاطی ہی شرمگاہوں کی حفاظت میں غفلت کا سبب بنتی ہے۔
بد نظری کے معاملے میں جو حال مردوں کا ہے کم و بیش وہی حال عورتوں کا بھی ہے ،چونکہ مرد وعورت کا خمیرایک ہی ہے اور عورتیں عموماً جذباتی و نرم طبیعت ہوتی ہیں ،جلد متاثر ہوجاتی ہیں ان کی آنکھیں میلی ہو جائیں ،تو زیادہ فتنے جگاتی ہیں ۔اس لیے ان کو بھی واضح اور صاف الفاظ میں نگاہیں نیچی رکھنے کی نصیحت کی گئی ہے۔
’’وقل للمؤمنات یغضضن من ابصارهنّ و یحفظن فروجهن ‘‘
۔ (نور۔31)
مسلمان عورتوں سے کہدیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔
اوّل الذکر آیت میں مرد وعورت دونوں نگاہیں نیچی رکھنے اور شرم گاہوں کی حفاظت کرنے کے حکم میں شامل تھے ،جس میں عام مومنین کو خطاب ہے،اور مومنین میں بالعموم عورتیں بھی شامل ہوتی ہیں۔نگاہیں نیچی رکھنے اور شرم گاہوں کی حفاظت کرنے کے حکم کی اہمیت کے پیش نظر ان کو بطور خاص دوبارہ نگاہیں نیچی رکھنے کو کہا گیا ہے، اسی سے مستدل یہ مسئلہ بھی ہے کہ جس طرح
مردوں کے لیے عورتوں کا دیکھنا منع ہے، اسی طرح عورتوں کے لیے مردوں کا دیکھنا مطلقاً ممنوع ہے۔
نگاہیں نیچی رکھنے کے فوائد بے شمار ہیں ،نگاہیں نیچی رکھنے میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کی اطاعت ہے ،جس سے اس زہر آلود تیر کا اثر دل تک نہیں پہونچتا ۔اللہ تعالیٰ سے انسیت و محبت بڑھتی ہے، دل کو قوت و فرحت حاصل ہو تی ہے ،دل کو نور حاصل ہو تا ہے مومن کی عقل و فراست بڑھتی ہے۔ دل کو ثبات و شجاعت حاصل ہو تی ہے ۔دل تک شیطان کے پہونچنے کا راستہ بند ہو جا تا ہے۔ دل مطمئن ہو کربہتر اور کا رآمد باتیں سوچتاہے۔
نظر اور دل کا بڑا قریبی تعلق ہے ،اور دونوں کے درمیان کا راستہ بہت مختصر ہے ۔دل کی اچھائی یا برائی کا دارو مدار نظر کی اچھائی و برائی پر ہے ۔جب نظر خراب ہو جاتی ہے، تو دل خراب
ہو جاتا ہے اس میں نجاستیں اور گندگیاں جمع ہو جاتی ہیں،اور اللہ کی معرفت اور محبت کے لیے اس میں گنجائش باقی نہیں رہتی ۔خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اپنی نگاہیں نیچی رکھتے ہیں اور وہ بڑی بڑی مصیبتو ں اور آفتوں سے بچے رہتے ہیں۔مومنوں کو بد نظری سے بچنا چاہئے اور نگاہیں نیچی رکھنی چاہئے تاکہ مرد و عورت عزت کے ساتھ زندگی گزاریں اور کوئی مصیبت ان پر نہ آئے، جس سے زندگی داؤ پر لگ جائے، اور ان کی اشرفیت جاتی رہے۔
بد نظری کرنے سے بہت سی برائیاں سر اٹھا تی ہیں، ابتدا میں آدمی اس کو ہلکی چیز سمجھ کر لطف اندوز ہو تا ہے، اور آگے چل کر عظیم گناہ کا مرتکب و ذلیل و رسواہو جاتا ہے ۔جس طرح چنگاری سے آگ کے شعلے بھڑکتے ہیں، اسی طرح بد نظری سے بڑی بڑی برائیاں جنم لیتی ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ العینان تزنیان و زناهما النظر‘‘ آنکھوں کا دیکھنا زنا ہے۔
اس سے زمین میں فساد پھیلتا ہے، زنا کے لیے راہ ہموار ہو تی ہے، اس سے گھر کی برکت ختم ہو تی ہے۔ بد نظری کرنے والے کو حسن عمل کی توفیق نہیں ہو تی۔ قوت حافظہ کمزور ہو جاتی ہے ۔یہ ذلت و رسوائی کا سبب بنتی ہے ،اس سے بے حیائی پھیلتی ہے ۔بد نظری سے انسان کے اندر خیالی محبوب کا تصور پیدا ہو جاتا ہے ،وہ خام آرزؤں اور تمناؤں میں الجھا رہتا ہے، اس کا دماغ متفرق چیزوں میں بٹ جاتا ہے، جس سے وہ حق اور ناحق کی تمیز نہیں کر پاتا۔اس سے دو دلوں میں شہوتوں کی آگ بھڑکتی ہے اور خوابیدہ جنسی جذبات میں جنبش ہوتی ہے۔
دور سے ہر چیز بھلی لگتی ہے، اس لیے انسان کا دل دیکھنے کو چاہتا ہے، اس کو پیاس لگی رہتی ہے جو کبھی نہیں بجھتی۔یہ گناہ اصل جوانی میں غلبۂ شہوت کی وجہ سے کیا جاتا ہے، پھر ایسا روگ لگ جاتا ہے کہ لب گور تک نہیں جاتا۔اللہ تعالیٰ نے ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت بنایا ہے کسے کسے دیکھنے کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ایک کو دیکھا دوسرے کو دیکھنے کی ہوس ہے، اسی دریا میں ساری عمر بہتا رہے گا، تب بھی کنارے پر نہیں پہونچے گا ،کیونکہ یہ دریا نا پید کنار ہے۔
بد نظری زنا کی سیڑھی ہے۔مثل مشہور ہے کہ دنیا کا سب سے لمبا سفر ایک قدم اٹھا نے سے شروع ہو جاتا ہے، اسی طرح بد نظری کر نے سے زنا کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ مومن کو چاہئے کہ پہلی سیڑھی ہی چڑھنے سے پرہیز کرے۔
بد نظری ایک تیر ہے، جو دلوں میں زہر ڈالتا ہے یہ تیر جب پیوست ہو جاتا ہے تو سوزش قلب بڑھنی شروع ہو جاتی ہے ۔جتنی بد نظری زیادہ کی جائے ،اتنا ہی زخم گہرا ہو تا ہے ۔ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نگاہ ڈالنے والا پہلے قتل ہو تا ہے، وجہ یہ ہے کہ نگاہ ڈالنے والا دوسری نگاہ کو اپنے زخم کا مداوا سمجھتا ہے، حالانکہ زخم اور گہرا ہو تا ہے۔ (بحوالہ:لکافی۔477)
لوگ کانٹوں سے بچ کے چلتے ہیں ہم نے پھولوں سے زخم کھائے ہیں
جب انکھیاں لڑتی ہیں اور نین سے نین ملتے ہیں تو چھپی آشنائی شروع ہو جاتی ہے اور سلام و پیام ،کلام و ملاقات کے دروازے وا ہو جاتے ہیں، اس کا سلسلہ جتنا دراز ہوتا جاتا ہے، اتنی ہی بیقراری بڑھتی جاتی ہے، اور اشاروں اشاروں میں زندگی بھر ایک ساتھ رہنے کے عہد و پیمان ہو جاتے ہیں، اور ایک طرح کا ہو کر ساتھ رہنے کی قسمیں کھائی جاتی ہیں اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ساری سوسائٹی سو گوار ہو جاتی ہے۔
بدنظری کر نے والے لوگ چو راہوں ،دوکانون میں بیٹھ کر آنے جانے والی عورتوں کو گھور گھور کردیکھتے ہیں اور چیتے کی طرح پھاڑ کھانے والی نظریں ان پر ڈالتے ہیں، اوربھوکے بھیڑیے کے مثل حلق میں اتار نے کی کوشش کر تے ہیں، اور نکلنے والی عورتیں ان فریب خوردہ لوگوں کی کٹیلی و نشیلی اور ھوس ناک نگاہوں کا شکار بنتی ہیں ۔
مغربی تہذیب کی لپیٹ میں آ کر بن ٹھن کر بے پردہ ہو کر نکلنے والی خواتین بھی بد نظری کے مواقع فراہم کر تی ہیں اور پازیب کے گھنگھر و بجاتے ہوئے اپنے گزرنے کا احساس دلاتی ہیں، اور بازار میں اپنے حسن کے جلوے بکھیرتی ہیں ۔خواتین جو گھروں کی زینت ہیں مارکیٹ کی زینت بنتی جارہی ہیں اور شیطان اپنی تمام تر فتنہ سامانیوں کے ساتھ عورت کے ناز و نکھرے اور چلنے کے انداز و ادا کوسنوار کرپیش کرتا ہے، اور عاشقانِ حسن کو گناہ بے لذت میں مبتلا کر دیتا ہے، اور منچلے لونڈے لفنگے لڑکے رال ٹیکائے اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں اور اس کو اپنے مطابق دیکھ کر اپنی ابھرتی خواہشات نفسانی اوردہکتی جذبات کی بھٹی کو سرد کر تے ہیں۔
بد نظری کر نے والے گھروں میں جھانک کر اور کھڑکیوں کے اندر رہنے والی عورتوں پر نظر کا جادو چلاتے ہیں اور وہ کسی ضرورت کے تحت کسی گھر میں چلے جاتے ہیں، تو ان کی نظر گھومتی رہتی ہے ،جب تک رہیں اپنے سامان کی تلاش جاری رکھتے ہیں اور کنکھیوں سے بار بار مخالف جنس کو دیکھتے ہیں، وہاں بھی غیرت نہیں آتی۔ کیونکہ یہ دھندا ہی ایسا ہے ،جس کا سابقہ پڑ گیا، پیچھا نہیں چھوڑتا۔ جوانی تو جوانی پیرانہ سالی میں بھی اسی سے منسلک رہتے ہیں اور آخر میں گھاٹا بھی گھاٹا ہاتھ آتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’یعلم خائنة الاعین ووماتخفی الصدور ‘‘
(المومن ۔ 17)
اللہ تعالیٰ جانتا ہے آنکھوں کی خیانت کو اور وہ کچھ جو سینوں میں پوشیدہ ہے ۔
خیانت نظر کی تشریح ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ کیا کہ :آدمی کسی کے گھر میں جائے وہاں کسی خوبصورت عورت ہو جسے نظر بچاکر دیکھنے کی کوشش کرے،اور جب لوگوں کو اپنی طرف
متوجہ پائے تو نظر نیچی کرلے،لیکن اللہ نے اس کے دل کا حال جان لیا ۔ ( الجواب الکافی)
پہلی اچانک نظر معاف ہے ۔نبی ﷺ سے عبد اللہ بن جریر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: اگر اچانک نظر پڑ جائے تو ؟آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’صرف نظرک‘‘ (مسلم)۔ تو اپنی نظر پھیرلے۔ اگر پہلی نظر ارادۃ ڈالی جائے، تو وہ بھی حرام ہے اور پہلی نظر معاف ہو نے کا یہ مطلب بھی نہیں کہ پہلی نظر ہی اتنی بھر پور ڈالی جائے کہ دوبارہ دیکھنے کی ضرورت ہی نہ رہے ۔صرف اتنی بات ہے کہ اگر اچانک نظر پڑجائے تو فوراً ہٹا لینا چاہئے ۔
انسانی آنکھیں جب بے لگام ہو تی ہیں، تو اکثر برائی و لڑائی کی بنیادبن جاتی ہیں اور انسان کے اندر گناہ کا تخم پڑجاتا ہے ۔ جو موقع ملنے پر بہار دکھاتا ہے ۔قابیل نے ہابیل کی بیوی کے جمال پر نظر ڈالی تو دل و دماغ پر ایسا بھوت سوار ہوا کہ اپنے بھائی کا قتل کر ڈالا۔اور دنیا میں پہلے قتل کا مرتکب ہوا۔عزیز مصر کی بیوی نے حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن کو دیکھا تو جذبات کے ہاتھوں ایسی بے قابو ہوئی کہ گناہ کی دعوت دے ڈالی۔
بد نظری کی ایک قسم وہ برہنہ تصاویر ہیں جو اخباروں اور کتابوں کی زینت بنتی ہیں ۔حتی کہ مضامین پر مشتمل رسالوں کے سر ورق پر چھپتی ہیں اورفلموں، ڈراموں اور ماڈلنگ کر نے والی عورتوں کی تصاویر ہیں جو اکثر جگہ دیواروں پر چسپاں رہتی ہیں۔ اور آج کل آسانی یہ ہو گئی ہے کہ ملٹی میڈیا موبائل سیٹ کے فنکشن میں یہ تصویریں قید رہتی ہیں اور انہی سیکڑوں برہنہ و نیم برہنہ تصاویر کو بدل بدل کر موبائل اسکرین میں سیٹ کیا جاتا ہے اور خلوت میں تلذد کی نگاہ مکمل توجہ کے ساتھ انکے انگ انگ کا معائنہ کرتی ہے ۔ ٹی،وی اناء و نسر کو خبروں کے بہانے دیکھنا ،گرل فرینڈوبوائے فرینڈ کی تصویر تنہائی میں للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا ، انٹر نیٹ پر پیشہ ور لڑکیوں کی تصاویر دیکھنا یا فحش ویڈیو سی ڈیز دیکھنا، ان سب کا دیکھنا زندہ عورت کو دیکھنے سے زیادہ نقصان دہ ہے ۔راہ چلتے غیر محرم کے خدو خال کو اتنی باریک بینی سے نہیں دیکھا جا سکتا ہے، جتنا کہ تصاویر کے ذریعہ دیکھنا ممکن ہے ،ان سے زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نگاہیں نیچی رکھنے کی توفیق فرمائے ۔آمین۔
کوّا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھول گیا۔ نام نہاد روشن خیالی اور مغرب پسندی نے ہماری حالت کچھ ایسی ہی کر دی ہے۔ کہنے کو ہم مسلمان ہیں لیکن ہم روز بروز دین سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم ہمیشہ کہتے رہے اور اپنے بچوں کو پڑھاتے رہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا لیکن اب یہ کہتے ہوئے ہمیں ایک عجیب ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے۔ ہمارا متفقہ آئین تو واضح انداز میں حکومت اور حکومتی اداروں پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ ایسی پالیسیاں بنائیں جس سے معاشرے میں ایک ایسا ماحول قائم ہو سکے جہاں مسلمانوں کو اسلامی طرزِ زندگی گزارنے کابہتر موقع مل سکے۔ مگر حقیقت میں اس طرف کوئی توجہ نہیں بلکہ الٹا ایسے اقدامات کئے جا رہے ہیں جو اس منزل کے بالکل برعکس ہے جس کا تعین آئین پاکستان کرتا ہے۔ نتیجتاً ہم ایک Confused قوم کے طور پر ابھر رہے ہیں جس کی اپنی کوئی سمت نہیں۔ ہم قرآن سے دور ہو رہے ہیں اور سنت رسول کا کوئی علم نہیں رکھتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ قرآن اور حدیث پڑھنے سے خدانخواستہ انتہاپسندی کو فروغ ملتا ہے اور عربی کی تعلیم کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔ دراصل مغرب سے مرعوب ہم مسلمان جاہلیت کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں اور اس روشنی کو حاصل نہیں کرنا چاہئے جو کتاب اللہ اور سنت رسول سے ہمیں حاصل ہو سکتی ہے اور جس کے ذریعے ہی ہم دین اسلام کی اصل فلاسفی کو سمجھ سکتے ہیں۔ عالم آن لائن کے معروف میزبان اور جنگ کے کالم کار جناب ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے اپنے گزشتہ کالم ”ہاں ہم رحمن کے ڈکیت ہیں!“ میں کس خوبصورتی سے میڈیا سے تعلق رکھنے والے ”پڑھے لکھے“ مسلمانوں کی ایسی جاہلیت کو اجاگر کیا جو یقینا ہم سب کے لیے باعثِ فکر ہے۔ حالیہ مبینہ پولیس مقابلہ میں مارے جانے والے عبدالرحمن ڈکیت کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے لکھا ”میرا سوال تو صرف یہ ہے کہ کیا اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کو سرخیاں چھاپتے اور بریکنگ نیوز کی سرخ پٹیوں پر اس دہشت گرد کا نام (معاذ اللہ) ”رحمن ڈکیت“ لکھتے ہوئے یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ وہ عمداً‘ دانستہ اور جان بوجھ کر ایک ایسی سنگین گستاخی کا ارتکاب کر رہے ہیں جو اعمال کو تباہ کر دینے کے لئے کافی ہے… ’رحمن‘… جسے سن کر اور پڑھ کر قلوب اطمینان پاتے ہیں اور یہی پکار اگر تسبیح بن جائے تو بگڑے مقدر تک سنور جاتے ہیں‘ ہم نے اس ”رحمن“ کو ایک عبدالرحمن نامی غنڈے کی شناخت کی خاطر بڑی بے رحمی سے لفظ ”ڈکیت“ کے ساتھ جوڑ دیا”۔
آگے چل کر ڈاکٹر صاحب نے لکھا کہ کیا یہ ” لکھے پڑھوں کا فرض نہ تھا کہ وہ اصلاح کے لیے آگے بڑھتے اور چھپنے سے پہلے اس توہین کو چھپا دیتے۔ لیکن یہاں میں ڈاکٹر صاحب کی گزارش میں عرض کروں گا کہ جن ”لکھے پڑھوں“ کا وہ حوالہ دے رہے ہیں ان میں سے بہت سوں کو تو اس بات کا علم ہی نہیں کہ ”رحمن“ صرف اور صرف اللہ کی ذات ہے اور یہ نام صرف خالقِ حقیقی کے لیے ہی استعمال ہو سکتا ہے۔ ہم اپنانام تو عبدالرحمن یعنی رحمن (اللہ) کا بندہ رکھ لیتے ہیں مگر اپنے اردگرد دیکھیں تو کتنے عبدالرحمانوں کو ہم ان کے اصل نام سے پکارتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو ہم جاہل ہیں اور اس جاہلیت سے نکلنا ہی نہیں چاہتے۔ ضرورت تو اس امر کی ہے کہ ہمارے بچوں کو ان کے اسکولوں اور کالجوں میں دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ قرآنی اور اسلامی تعلیم بھی اس انداز میں دی جائے کہ ہم پڑھے لکھے باشعور مسلمان پیدا کر سکیں جن کو اپنے دین پر فخر ہو اور اسلام کے فلسفہٴ حیات کو سمجھتے ہوں۔ مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹ چل رہا ہے۔ 1999ء کی قومی تعلیمی پالیسی جو ظاہری طور پر آج بھی نافذ العمل ہے اس کے مطابق اسکولوں میں بچوں کو دنیاوی علوم کے علاوہ نہ صرف قرآنی تعلیم دی جائے گی بلکہ ان کو اسلامی تاریخ اس انداز میں پڑھائی جائے گی تاکہ ہم ایک ایسی نسل پیدا کر سکیں جس کو اپنے دین کی بھی سمجھ ہو، اپنی نظریاتی اساس کا بھی پتہ ہو اور دنیاوی علوم میں بھی سب سے آگے ہوں۔ پرویز مشرف نے اپنے دور میں بیرونی دباؤ کے نتیجے میں اور اپنی نام نہاد روشن خیالی کی وجہ سے نہ صرف اس پالیسی پر عملدرآمد نہ کیا بلکہ نصاب میں ایسی تبدیلیاں کیں جو ہمارے بیرونی آقاؤں کی خوشنودی کے لئے مقصود تھیں۔ موجودہ حکومت بھی پرویز مشرف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک ایسی قومی تعلیمی پالیسی کو مرتب کر رہی ہے جس میں 1999ء کی پالیسی میں دیئے گئے اسلامی نکات کو سرے سے ہی نکالا جا رہا ہے۔ 2009ء کی ڈرافٹ قومی تعلیمی پالیسی جو اگلے دس سال کے لیے مرتب کی جا رہی ہے، میں 1999ء کی پالیسی میں دیا گیا باب 3 ”اسلامی تعلیم“ کو مکمل طور پر حذف کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 1999ء کی پالیسی کے باب 2 ”نصب العین اور مقاصد“ میں دیئے گئے بیشتر اسلامی نکات کو نئی ڈرافٹ پالیسی میں سے نکال دیا گیا ہے۔ 1999ء کی پالیسی میں یہ صاف طور پر دیا گیا ہے کہ قرآنی اور اسلامی تعلیمات لازمی ہوں گی اور عربی زبان کو فروغ دیا جائے گا۔ زیرغور 2009ء ڈرافٹ پالیسی میں ایسی کوئی شق شامل نہیں۔ اب تو ویسے بھی عربی زبان کو Optional Subject کے طور پر پڑھانے کی بھی مخالفت کی جا رہی ہے جو آئین پاکستان کے سراسرمتصادم ہے۔ آئین کے آرٹیکل 31 جس کو ہم مکمل طور پر بھول چکے ہیں کے مطابق نہ صرف ایسے اقدامات اٹھائے جائیں گے جس سے پاکستان کے مسلمان اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق گزار سکیں اور قرآن اور سنت رسول کی روشنی میں نظریہ حیات مطلب سمجھ سکیں بلکہ اسی آئینی شق میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ قرآن کی تعلیم اور اسلامیات لازمی طور پر پڑھائی جائے گی اور عربی زبان کی بھی ترویج کی جائے گی۔ اس کے علاوہ اسلامی اقدار کو بھی فروغ دیا جائے گا۔ آئین میں دی گئی دوسری اسلامی شقوں کی طرف شق 31 کا شمار بھی آئین کے اس بنیادی ڈھانچے میں ہوتا ہے جس کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ مگر افسوس کہ ان شقوں پر عملدرآمد کرانے میں ہماری حکومتیں کوئی دلچسپی نہیں لیتیں۔ اگر ہم اپنے لوگوں کو اسلامی تعلیمات اور دین کا درس دینگے اور ان کے لیے ایسا ماحول پیدا کریں گے کہ وہ اسلامی اقدار کے مطابق زندگیاں گزاریں تو نہ تو یہاں گلے کاٹنے والے طالبان پیدا ہوں گے اور نہ ہی خودکش بمبار۔ نہ تو اقلیتوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جا سکے گا اور نہ ہی گوجرہ جیسے شرمناک واقعات رونما ہوں گے۔ گوجرہ واقعہ کے حوالے سے یہاں میں کہتا چلوں کہ جس جاہلیت کا مظاہرہ ان درندوں نے کیا جنہوں نے بغیر سوچے سمجھے اقلیت سے تعلق رکھنے والے کئی پاکستانیوں کو زندہ آگ لگا کرزندہ جلا دیاکچھ اسی قسم کی جاہلیت کا مظاہرہ سول سوسائٹی اور نام نہاد انسانی حقوق کے وہ علمبردار کر رہے ہیں جو اس واقعہ کے تناظر میں توہین رسالت کے قانون کے خاتمہ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کوئی ان انسانی حقوق کے علمبرداروں سے پوچھے کیا توہین رسالت کاقانون گوجرہ جیسے واقعات کی اجازت دیتا ہے۔ بیرونی قوتوں کے اشارے پر پاکستان میں موجود ایک طبقہ کافی عرصہ سے سرگرم عمل ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کے نام پر اس قانون کو ختم کرایا جا سکے۔ توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال کی ہر گنجائش کو روکا جانا چاہئے مگر اس قانون کا خاتمہ ایک ایسے فتنے کی بنیاد ہو گی جو پورے معاشرے کی تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔