مرد گھر کا نگران و کفيل ہے اور عورت پھول

مرد گھر کا نگران و کفيل ہے

اسلام نے مرد کو ’’قَوَّام‘‘(گھر کا نگران اور کفيل) اور عورت کو ’’ريحان‘‘(پھول) قرار ديا ہے۔ نہ يہ مرد کي شان ميں گستاخي ہے اور نہ عورت سے بے ادبي، نہ يہ مرد کے حقوق کو کم کرنا ہے اور نہ عورت کے حقوق کي پائمالي ہے بلکہ يہ ان کي فطرت و طبيعت کو صحيح زاويے سے ديکھنا ہے۔

 امور زندگي کے ترازو ميں يہ دونوں پلڑے برابر ہيں۔ يعني جب ايک پلڑے ميں (عورت کي شکل ميں) صنف نازک، لطيف و زيبا احساس اور زندگي کے ماحول ميں آرام و سکون اور معنوي زينت و آرائش کے عامل کو رکھتے ہيں اور دوسرے پلڑے ميں گھر کے مدير، محنت و مشقت کرنے والے بازوں اور بيوي کي تکيہ گاہ اور قابل اعتماد ہستي کو (شوہر کي شکل ميں) رکھتے ہيں تو يہ دونوں پلڑے برابر ہو جاتے ہيں۔ نہ يہ اُس سے اونچا ہوتا ہے اور نہ وہ اس سے نيچے۔

کتاب کا نام : طلوع عشق

مصنف :  حضرت آيۃ اللہ العظميٰ خامنہ اي

changes

change.

everything in life can change. everything .
time change, life change.

firends change.
relashions change.
wishes change.
goals change.
love change.

this is what i am experiencing. and i am lost now. fade up of living this L….

امين خانہ

گھر كے اخراجات كا انتظام عموماً مرد كے ذمہ ہوتا ہے _ مرد شب و روز محنت كركے اپنے خاندان كى ضروريات پورى كرتا ہے _ اس دائمى بيگارى كو ايك شرعى اور انسانى فريضہ سمجھ كروں و جان سے انجام ديتا ہے _ اپنے خاندان كے آرام و آسائشے كى خاطر ہر قسم كى تكليف و پريشانى كو خندہ پيشانى سے برداشت كرتا ہے اور ان كى خوشى ميں لذت محسوس كرتا ہے _ ليكن گھر كى مالكہ سے توقع ركھتا ہے كہ پيسے كى قدروقيمت سمجھے اور بيكار خرچ نہ كرے _ اس سے توقع كرتا ہے كہ گھركے اخراجات ميں نہايت دل سوزى اور عاقبت انديشى سے كام لے _

2010 ka akhri din

This is my annual post, the last post of 2010. and here i will sum up, what happened in my life in that year and look ahead to what’s going to happen in 2011. I do this so I can have a handy record that I can get to in seconds.
First month of 2010 was not good, after the month of march that year starts bringing me alot of happiness, in my personal life as well as in my career. Thanks to ALLAH for each and everything.

Many days was very good, few days was bad. this year i got sick 4 times.
This Year, I read almost 52 great Informative books on Islam, Life, and Science.I learn alot from those books. and i have change my life too much, beacuse i have implemented 80% in my life, that i read from books. Books are the best friends of a person. I spend my free time with books.
This year i didnt watch Television. as compared to past years. Only 2% of my time of 2010 i sit infront of tv to watch it.
I spend alot of my time on internet, for reading articles and news all around the world.

This year was nice. and I pray ALLAH, the coming year 2011 bring alot of happiness for my loved one,family, and friends.and take away all our sorrows and problems from our life. Make us powerfull,happy and healthy,wealthy. and A good MUSLIMS as ALLAH says in QURAN. Ameen

غصہ دور کرنے کا طریقہ

دورِحاضر کا ذکر ہے کہ ایک بچہ بہت بدتمیز اور غصے کا تیز تھا۔اسے بات بے بات فوراً غصہ آجاتا ، والدین نے اسے کنٹرول کرنے کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئے۔ایک روز اسکے والد کو ایک ترکیب سوجھی۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو کیلوں کا ایک ڈبا لا کے دیا اور گھر کے پچھلے حصے کی دیوار کے پاس لے جا کر کہنے لگے، “ بیٹا جب بھی تمہیں غصہ آئے ۔اس میں سے ایک کیل نکال کر یہاں دیوار میں ٹھونک دینا۔پہلے دن لڑکے نے دیوار میں 37  کیلیں ٹھونکیں۔ایک دو ہفتے گزرنے کے بعد بچہ سمجھ گیا کہ غصہ کنٹرول کرنا آسان ہے لیکن دیوار میں کیل ٹھونکنا خاصا مشکل کام ہے۔اس نے یہ بات اپنے والد کو بتائی۔والد نے مشورہ دیا کہ اب جب تمھیں غصہ آئے اور تم اسے کنٹرول کر لو تو ایک کیل دیوار میں سے نکال دینا۔لڑکے نے ایسا ہی کیا اور بہت جلد دیوار سے ساری کیلیں نکال لیں۔
باپ نے بیٹے کا ہاتھ پکڑا اور اس دیوار کے پاس لے جا کر کہنے لگے،بیٹا تم نے اپنے غصے کو کنٹرول کرکے بہت اچھا کیا لیکن ذرا اس دیوار کو غور سے دیکھو ! یہ پہلے جیسی نہیں‌رہی۔ اس میں یہ سوراخ کتنے برے لگ رہے ہیں۔جب تم غصے سے چیختے چلاتے ہو اور الٹی سیدھی باتیں‌کرتے ہو تو اس دیوار کی مانند تمھاری شخصیت پر بھی بہت برا اثر پڑتا ہے۔تم انسان کے دل میں‌چاقو گھونپ کر اسے باہر نکال سکتے ہو لیکن چاقو باہر نکالنے کے بعد تم ہزار بار بھی معذرت کرو ، معافی مانگو ، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔وہ زخم اپنی جگہ باقی رہے گا۔

یاد رکھو زبان کا زخم ،چاقو سے کہیں‌بد تر اور دردناک ہے !

 

اس کے بعد بھی گوگل پر تلاش جاری رکھی اور مسرت اللہ جان کا آرٹیکل  کیا آپ کو غصہ آتا ہے اچھا لگا جس میں سے ایک اقتباس یہ ہے

 

مجھے بھی آتا ہے اور البرٹ پینٹو کو بھی آتا ہے۔ لیکن کب اور کیوں آتا ہے اور یہ کہ کن لوگوں کو کم اور کن کو زیادہ آتا ہے۔ مجھے غصہ کیوں آتا ہے اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ اپنی زندگی تلخیوں سے عبارت ہے بلکہ ایسی بات پر بھی آتا ہے جنہیں لوگ نظرانداز کردیتے ہیں۔ بات بات پر غصہ آتا ہے اور چونکہ ایک عدد ملازم رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتا ہوں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اپنا یہ غصہ ہمیشہ قہر درویش بر جان درویش ثابت ہوا اسی غصہ اور بے بسی کے باعث ایک سے زائد مرتبہ ذہنی دباؤ میں بھی مبتلا ہوا اور اس طرح جسم اور ذہن کے ساتھ ساتھ پیسے کا بھی نقصان برداشت کرنا پڑا۔

 

روح کا ناسور نامی عنوان سے یہ مفید باتیں پتہ چلیں

حضرت امام جعفر صادق(علیہ السلام) سے روایت ہے کہ انھوں نے اپنے پدر بزرگوار حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے سنا۔کہ ایک بدّو رسول خدا کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں ریگستان میں رہتا ہوں۔ مجھے عقل اور دانش کی باتیں بتائیں۔ جواب میں جناب رسول اللہ نے فرمایا۔ ”میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ غصّہ نہ کیا کرنا۔“
اسی سوال کو ۳ دفعہ دہرانے اور رسول خدا سے ایک ہی جواب پانے پر بدّو نے اپنے دل میں کہا کہ اس کے بعد میں پیغمبر خدا سے اور کوئی سوال نہیں کروں گا اس لئے کہ وہ نیکی کے علاوہ اور کسی چیز کا حکم نہیں دیں گے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کہتے تھے کہ میرے والد ماجد فرمایا کرتے تھے :
”کیا غضب سے بڑھ کر اور کوئی شدید شئے ہوسکتی ہے؟ ایک شخص کو غصّہ آجاتا ہے اور وہ کسی ایسے آدمی کا قتل کردیتا ہے۔ جس کا خون اللہ کی طرف سے حرام کردیا گیا ہے یا ایک شادی شدہ عورت پر تہمت اور الزام لگا بیٹھتا ہے۔“
(الکلینی الکافی، جلد ۲، صفحہ ۳۰۳، حدیث ۴)

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السّلام نے فرمایا:
’اپنے آپ کو غصّہ سے بچاؤ اس لئے کہ اس کی ابتداء دیوانگی ہے اور انتہا اس کی ندامت اور پشیمانی۔‘

 

فیض رضا سے یہ کام کی چیزیں ملی۔

حدیث شریف میں ہے جو شخص اپنے غصے کو روک لے گا، اللہ عزوجل بروز قیامت اس سے اپنا عذاب روک لے گا۔ ( مشکٰوۃ شریف )
ابوداؤد کی حدیث میں ہے جس نے غصے کو ضبط کر لیا حالانکہ ہ اسے نافذ کرنے پر قادر تھا تو اللہ تعالٰی بروز قیامت اس کو تمام مخلوق کے سامنے بلائے گا اور اختیار دے گا کہ جس حور کو چاہے لے لے ( اس کے بعد مرد حضرات پر تو غصہ حرام ہونا حقیقی معنوں میں سمجھ آ جاتا ہے کیونکہ غصہ کرکے حور گنوانا گویا لاٹری جیت کر ٹکٹ گنوانے کے مترادف ہے )۔

غصہ معاشرے کی ان بڑی برائیوں میں سے ہے جس سے انسان کی شخصی اور تعمیری بلندی کو زوال آتا ہے انسان ہمیشہ ان حالات سے دوچار رہتا ہے جس کی وجہ سے اعصاب اور حواس کھینچے رہتے ہیں اس کی یادداشت بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی غصہ زہر کا اثر رکھتا ہے اور خون میں ایک زہریلا مادہ پیدا کرتا ہے جس سے چہرے پر رونق ختم ہو جاتی ہے آنکھوں اور ہونٹوں میں تازگی ختم ہو جاتی ہے غصہ معدے اور اعصابی نظام کو بری طرح متاثر کرتا ہے اور کردار میں منفی اور تخریبی اثرات پیدا کرتا ہے ماہرین عمرانیات ( سوشیالوجی ) کا کہنا ہے کہ خاوند غصیلا ہو یا بیوی ان کے گھر میں سکون اور اطمینان نہیں رہتا ا سکے اثرات بچوں پر بھی مرتب ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں بچے آپس میں پیار و محبت میں رہنے کے بجائے لڑتے جھگڑتے ہیں پھر غصہ پورے معاشرے میں بد امنی کرتا ہے۔  ( سنتیں اور انکی برکتیں )

غصہ پر قابو پانے کے لیے مندرجہ ذیل علاج بتائے جاتے ہیں ، آپ بھی آزما کر دیکھیں

اعوذ  باللہ من الشیطن الرجیم پڑھنا
لاحول ولا قوتہ الا باللہ پڑھنا
وضو کر لینا
کھڑے ہو تو بیٹھ جانا اور بیٹھے ہوں تو لیٹ جانا
جس پر غصہ آ رہا ہو اس کے سامنے سے ہٹ جانا
پانی پینا
خاموش ہو جانا

ڈیوک یونیورسٹی امریکہ کے ایک سائنسدان ڈاکٹر ریڈ فورڈ بی ولیمز کے مطابق غصے اور بغض رکھنے والے افراد جلد مر جاتے ہیں ان کے مطابق اس سے انسانی قلب کو وہی نقصان پہنچتا ہے جو تمباکونوشی اور ہائی بلڈ پریشر سے پہنچتا ہے۔ امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کی جانب سے سائنسی ادیبوں کے سیمینار میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ بہت سے لوگ وقت سے پہلے محض بغض اور کینے کے جذبات کی شدت کی وجہ سے چل بستے ہیں غصہ اور بغض قلبی دردوں کے اہم اسباب میں سے ایک ہیں اس طرح حرص و طمع میں مبتلا بے چین و بے صبر افراد بھی حد سے زیادہ بڑھی ہوئی تمناؤں اور آرزؤں کے ہاتھوں اپنی شمع زندگی کو گل کر لیتے ہیں۔
ماہرین نے غصیلے اعصاب زدہ، بے چین اور ضرورت سے زیادہ آرزو مند افراد کو زمرہ “ الف “ اور بردبار، حلیم اور صابر و شاکر لوگوں کو زمرہ “ ب “ میں تقسیم کیا ہے وہ اب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ زمرہ الف سے تعلق رکھنے والے افراد بالعموم امراض قلب کی زد میں رہتے ہیں اور انہیں کولیسٹرول کی زیادتی، سگریٹ نوشی اور ہائی بلڈ پریشر ہی کی طرح دورہ قلب کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ ( سنت نبوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اور جدید سائنس )

 

سورة آل عِمرَان -(غیرمذہب کے آدمی سے دوستی)- سورة آل عِمرَان

سورة آل عِمرَان
مومنو! کسی غیر (مذہب کے آدمی) کو اپنا رازداں نہ بنانا یہ لوگ تمہاری خرابی اور (فتنہ انگیزی کرنے) میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ (جس طرح ہو) تمہیں تکلیف پہنچے ان کی زبانوں سے تو دشمنی ظاہر ہوہی چکی ہے اور جو (کینے) ان کے سینوں میں مخفی ہیں وہ کہیں زیادہ ہیں اگر تم عقل رکھتے ہو تو ہم نے تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سنا دی ہیں (۱۱۸) دیکھو تم ایسے (صاف دل) لوگ ہو کہ ان لوگوں سے دوستی رکھتے ہو حالانکہ وہ تم سے دوستی نہیں رکھتے اور تم سب کتابوں پر ایمان رکھتے ہو (اور وہ تمہاری کتاب کو نہیں مانتے) اور جب تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لے آئے اور جب الگ ہوتے ہیں تو تم پر غصے کے سبب انگلیاں کاٹ کاٹ کھاتے ہیں (ان سے) کہہ دو کہ (بدبختو) غصے میں مر جاؤ خدا تمہارے دلوں کی باتوں سے خوب واقف ہے (۱۱۹) اگر تمہیں آسودگی حاصل ہو تو ان کو بری لگتی ہے اور اگر رنج پہنچے تو خوش ہوتے ہیں اور اگر تم تکلیفوں کی برداشت اور (ان سے) کنارہ کشی کرتے رہو گے تو ان کا فریب تمھیں کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکے گا یہ جو کچھ کرتے ہیں خدا اس پر احاطہ کیے ہوئے ہے (۱۲۰) اور (اس وقت کو یاد کرو) جب تم صبح کو اپنے گھر روانہ ہو کر ایمان والوں کو لڑائی کے لیے مورچوں پر (موقع بہ موقع) متعین کرنے لگے اور خدا سب کچھ سنتا اور جانتا ہے (۱۲۱) اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے جی چھوڑ دینا چاہا مگر خدا ان کا مددگار تھا اور مومنوں کو خدا ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیئے (۱۲۲)

نفرت نہیں، محبت

نفرت نہیں، محبت

ہم اپنی زندگی میں نہ جانے کتنی نفرتیں پالتے ہیں۔ محبت بکھیرنے کی بجائے ، فاصلے بکھیڑتے ہیں۔ نفرت نے سوچ کو محدود کیا، رائے و تحقیق کو تعصب کی نگاہ بخشی۔ زندگی کی گوناگونی میں متناقص و متناقض بے چینی پیدا کی۔ ژرف نگاری کے نام پر ضرب کاری ہونے لگی۔ پیدائش کا نطفہ بخیلی سے جنم لینے لگا۔ اسلام کے نام پر کرخت مزاجی بھڑکنے لگی۔

ہم آئے روزمنفی و تخریبی موضوعات پر تحاریرلکھتے ہیں۔اِن منفی موضوعات کومثبت انداز میں تنقید کی نکتہ چینی کی بجائے ؛ اصلاحی رنگ دے سکتے ہیں۔ ہم نفرت پہ تو بات کرتے ہیں۔ اگر نفرت کی ضد محبت سے بات کرے تو ہمارے اذہان و قلوب میں خوب صورت کیفیات ہی مرتب ہو سکتی ہے۔

آج ہمارا ادیب بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ اُس کو معاشرہ کی فحش گوئی بیان کرنے کے لیے اب طوائفہ سے معشوقہ کی تلاش ہونے لگی۔ سکینڈل بیان کرتے کرتے معاشرہ کو سکینڈل زدہ بنا دیا۔ کاش! کو ئی ادیب تعمیری سوچ کے ساتھ معاشرہ میں تعمیر بخشے۔ شاعر کی شاعری برہنہ گوئی رہ گئی۔ مقصد و خیال رخصت ہو چکے۔

ہمیں آج تعمیری سوچ کی ضرورت ہے۔ جاہلانہ اذہان دوسروں کی آپسی ملاقاتوں سے بھی بُرا تصور اخذکرتے ہیں۔ شاکی اذہان میں سازش ، بد نگاہوں سے برائی، متلون مزاجی سے وسواس قلوب میں جنم لیتے ہیں۔نہ جانے نفرتیں کہاں کہاں پنپ رہی ہیں۔

لاﺅتزے نے تاﺅ تے چنگ میں فرمایا تھا۔” جب دُنیا جانتی ہے؛ خوبصورتی جیسے خوبصورتی ہے، بدصورتی اُبھرتی ہے،جب جانتے ہیں، اچھائی اچھائی ہے، برائی بڑھتی ہے“

مینیشس نے کہا تھا،” برائی کی موجودگی اچھائی کی شان ہے۔ برائی کی ضد اچھائی ہے۔ یہ ایک دوسرے سے بندھی ہے۔برائی کی کایا اچھائی میں پلٹ سکتی ہے۔ برائی کیا ہے؟ ایک وقت میں تو وُہ ہے،مگر بعدکے کسی دور میں وُہ اچھائی ہوسکتی ہے کسی اور کے لیے۔“

مذاہب محبت کی بات کرتے ہیں۔ عبادت گاہیں محبت کی مرکز ہیں مگر آج فرقوں کے نام پر نفرتیں بٹ رہی ہیں۔ گیتا، جپ جی صاحب، سُکھ منی صاحب، ادی گرنتھ صاحب،تاﺅتے چنگ محبت ہی کی تعلیم دے رہی ہیں۔ یہ اخلاقی تعلیمات کے لازوال شاہکارہیں۔ہر مذہب میں جھوٹ، شراب، جوائ، زنا، جھوٹی گواہی کی پابندیاں عائد ہیں۔ ان سے انحراف معاشرہ میں نفرت کا جنم ہے۔

ناکام معاشرے اپنی خامیوں کی پردہ پوشی کرتے ہیں، دوسروں کی خوبیوں کی عیب جوئی فرماتے ہیں,۔تنگ نظر اذہان تنگ نظری کی بات کرتے ہیں۔ کچھ لوگ خو د کو راجپوت، سید اور اعوان کہلانے پر فخر کرتے ہیں۔دوسروں کو اپنی احساس کمتری کے باعث کمی کمین کہتے ہیں۔ بھئی فخر کرنے کے لیے ویسے اعمال بھی ہونے چاہیے۔ راجپوت اپنی خودداری، وطن پرستی اور غیرت کی روایات کی پاسداری کرتے تھے ۔کٹھن حالات میں’ جوہر ‘ کی رسم ادا کرتے تھے۔ جب راجپوت اپنا دفاع ناکام ہوتا دیکھتے تو عورتیں بچوں سمیت آگ میں کود پڑتیں تاکہ بے حرمتی کی ذلت سے بچ سکیں۔یوںمرد اپنے گھر بار کی فکر سے آزاد ہوکرآخر دم تک لڑتے ہوئے ؛ وطن کے تحفظ پر جان قربان کر تے تھے۔ دشمن کی فتح تب ہوتی، جب کوئی راجپوت باقی نہ رہتا۔ رانااودے سنگھ، رانا پرتاب سنگھ نے مغل عہد میںراجپوت خودداری کو قائم رکھا۔سید اور اعوان خود کوحضرت علی رضی اللہ عنہ کی اُولاد ہونے پر ناز کرتے ہیں۔ شان تویہ ہیں؛جب اعمال و کردار حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نقش قدم کے مطابق ہو۔ ورنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام سن کر سر شرمندگی سے جھک جائے۔لوگ خود کو سردار، نواب ، راجگان ،ملک،بیگ، خان، رانا، چوہدری اور قاضی وغیرہ کے ناموں سے متعارف کرواتے ہیں۔ ایسے تاریخی سرکاری عہدوں اور القابات کا قبیلہ سے کوئی تعلق نہیں۔ کیا ہم میں کوئی ایسی خصوصیت ہے کہ ہمیں آج کی سرکار کوئی رتبہ عنائیت فرمائے۔ جب ہم میں ایسی کوئی خاصیت نہیں تو ہم ترقی پانے والے لوگوں کے کم ذات ہونے پر تبصرہ کیوں کرتے ہیں ؟ دراصل ہم اپنی احساس کمتری کو احساس برتری سے چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ غالب کا مصرع ہے:

دِل کو خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

محبت بانٹنے سے بڑھتی ہے اور نفرت سمیٹنے سے پھیلتی ہے۔ نفرتیں مت سمیٹوں۔تعصب کی عینک اُتار کر دیکھو تو سوچ کی وسعت خوب پھیلے گی ۔ ورنہ بند گلی کے بند راہی بنو گے۔

زندگی کا حسن محبت، نعمتِ خداوندی مسکراہٹ ہے۔ بندوں سے تعصب، دِل میں خدا کی محبت کو بھی دور کرتا ہے۔ اللہ سے محبت اللہ کے بندوں سے محبت ہے۔

میرے ذہن میں ایک سوال بچپن سے اُمڈتا ہے۔ اسلام خوش اخلاقی کی عملی تربیت دیتا ہے۔ ہمارے بیشتر مذہبی نمائندگان یا وُہ افراد جو مذہبی جھکاﺅ زیادہ رکھتے ہیں۔ دِن بدن اُنکے مزاج میں کرختگی اور برداشت کی کمی کیوں واقع ہوتی جا رہی ہے؟ اپنے گروہ کے سواءکسی اور کو سلام کرنا گوارہ کیوں نہیں کرتے۔ غیر مذہبی افراد کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا تو سکتے ہیں۔ مگر مسلمان بھائی کے ساتھ بیٹھنا کیوں گوارہ نہیں؟ یہ وُہ عملی مناظر ہے، جس نے آج کے نوجوان کوپریشان کیاہے۔

برصغیر میں مسلمانوں کی آمد اور شاہجہانی دور کی عظمت ایک دِن یا عرصہ کی بات نہیں،یہ صدیوں کے تاریخی تسلسل میں نکلنے والی کونپل تھی، جسکی خوشبو میں نفرت کی بدبو گھٹتی گئی اور محبت پھیلی۔ اردو میل ملاپوں میں آسودہ ہوئی۔ علاقائی تعصبات سے آلودہ ہوئی۔پاکستان میں معاشرتی زندگی کا جو تصور تحریک آزادی میں پیش کیا گیا تھا۔ مذہبی آزادی و رواداری تھا۔ آج مسلکی بنیادوں پر نفرتیں سرائیت کر چکی۔ اے اللہ! ہمیں ایسی تحقیق سے محروم فرما، جس میں ہم تاریخ ِ اسلام کی عالیٰ مرتبت بزرگان کے مسلک کی تلاش کریں۔ ہمیںمسلک کی بنیاد پر نفرت سے بچا۔

مجھے کبھی کبھی افسوس ہوتا ہے۔ غیر جانبدارانہ رویہ بھی موت کا سبب بنتا ہے۔ابن رشد نے یونانی تراجم یونانی رو سے کیے تو ملحد ہوکر خارج الاسلام قرار دیا گیا۔ شہزادہ دارالشّکوہ نے سکینة الاولیاءاور سفینة الاولیاءایام جوانی میں تحریر فرما کر بڑا نام پایا۔ مگر ہندی تراجم ہندوﺅانہ روح سے کرکے مرتد قرار دیکر واجب القتل ٹھہرا اور سولی پر چڑھایا گیا۔ شائید ہر دور کا ارسطو زہر کا پیالہ پینے کو ترجیح دیتا ہے۔ اُس زمانے میں افلاطون نے شہر چھوڑا تھا۔ آج لوگ خاموش ہوگئے ہیں۔

یہ نفرتیں ہی ہیں۔ جنھوں نے ہماری زندگی میں تنہائیاں ہی جنم دی ہیں۔ خوشی اور غمی کے جذبات سے عاری معاشرہ پنپ رہا ہے۔ ہمیں سوچنا ہے ہم اپنی نسل کو کیا منتقل کر رہے ہیں!

ہماری عیدین گزرتی ہیں۔ذرا سوچئے! آپ کتنی خوشیاں بکھیرتے ہیں؟ کتنے چہروں پر مسکراہٹ لاتے ہیں؟کسقدر رخنہ زدہ بندھنوں کو اِک لڑی میں پروتے ہیں؟ کیا عید کے روز ماتھا پہ شکن، گفتگو میں گالم گلوچ، دِل میں بغض، حسد، کینہ اور رویوں میں نفرت ہونی چاہیے؟ عید کے روز خلاف مزاج بات پر سخت الفاظ منہ سے نکالنا بھی میرے خیال میں عید کی توہین ہے۔

کیا ہم سال میں صرف عیدین کے دو ایاّم کو اپنے رویہ سے خوبصورت نہیں بنا سکتے ،جہاں صرف محبت ہی محبت آپ سے مِل رہی ہو؟ معاشرہ کا ردّعمل جو بھی ہو، عید کے روز خود کو محبت کو عملی نمونہ بنائے۔

عید کے روز میرے ایس -ایم-ایس پہ پریشان مت ہوا کریں۔ میں آپ سب سے بھی خوشی بانٹ رہا ہوتا ہوں۔ میں عیدین پر اپنے ہزاروں چاہنے اور جاننے والوں کو نیک تمناﺅں کا پیغام بھیجتا ہوں اور رہونگا۔ لہذا! آپ نہ تو تذبذب کا شکار ہو اور نہ شک میں پڑیں۔ کیونکہ محبت کو شک کھا جاتا ہے۔

(فرخ نور)

مشکل الفاظ کے معنی

گوناگونی : ورائٹی، مختلف اقسام

متناقص: نقص رکھنے والا، ناقص، نامکمل

متناقض: مخالف، برعکس، اُلٹا، خلاف

زندگی سے موت بہتر ہے

: دنیا کے مصائب و آلام سے بیزار ہو کر موت کی تمنا کرنا اوراپنے لئے موت کی دعا کرنا مکروہ تحریمی ہے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مصیبتوں کے سبب موت کی آرزو کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں حدیث پاک ہے :
عن أنس بن مالك رضى الله عنه قال النبى صلى الله عليه وسلم « لا يتمنين أحدكم الموت من ضر أصابه ، فإن كان لا بد فاعلا فليقل اللهم أحينى ما كانت الحياة خيرا لى ، وتوفنى إذا كانت الوفاة خيرا لى »
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: تم میں کوئی کسی مصیبت کی وجہ سے ہرگز موت کی آرزو نہ کرے اگر وہ موت کی خواہش ہی رکھتا ہے تو یہ دعا کرے
’’ اللَّهُمَّ أَحْيِنِى مَا كَانَتِ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِى ، وَتَوَفَّنِى إِذَا كَانَتِ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِى
ترجمہ :‘‘ اے اللہ تو مجھ کو حیات عطا فرما جب تک زندگی میرے حق میں بہتر ہو اور مجھکو موت عطاء فرما جب وفات میرے لئے بہتر ہو۔
﴿ صحیح بخاری شریف ،باب تمنی المریض الموت ،حدیث نمبر:5671﴾
اگر گناہوں کی کثرت ہو جائے ،فتنے امنڈنے لگیں اور مصیبت میں پڑنے کا خوف ہو تو اپنے دین کو بچانے اور فتنوں سے خلاصی پانے کیلئے موت کی تمنا کرسکتا ہے جیساکہ سنن ترمذی شریف میں حدیث شریف ہے :
عن أبى هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ……فبطن الأرض خير لكم من ظهرها ۔
ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ……( ایسے زمانہ میں ) زمین کا اندرونی حصہ تمہارے لئے زمین کے بیرونی حصہ سے بہتر ہے۔ ﴿ جامع ترمذی شریف ،حدیث نمبر:2435﴾
الغرض دنیا کے خوف سے موت کی تمنا نہیں کرنا چاہئے ۔

در مختار ج 5 ص 297 میں ہے:
( یکرہ تمنی الموت ) لغضب او ضیق عیش ( الا لخوف الوقوع فی معصیۃ ) ای فیکرہ لخوف الدنیا لا الدین لحدیث فبطن الارض خیرلکم من ظھرھا
اور رد المحتار ‘‘ میں ہے
’’ فی صحیح مسلم « لا يتمنين أحدكم الموت لضر نزل به فإن كان لا بد متمنيا فليقل اللهم أحينى ما كانت الحياة خيرا لى وتوفنى إذا كانت الوفاة خيرا لى ». ﴿ مسلم شریف ،باب كراهة تمنى الموت لضر نزل به،حدیث نمبر:6990﴾
واللہ اعلم بالصواب –
سیدضیاءالدین عفی عنہ ،
نائب شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ
بانی وصدر ابو الحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر

مسلمان ہونا کوئی مشکل امر نہیں مگر مسلمان بن کر حدود شرع کی پاسداری کرتے ہوئے زندگی گزارنا دشوار ہے اور صحیح معنوں میں مسلمان وہی ہے جو شرعی احکام و مسائل پر سختی سے کاربند ہو کر کتاب زندگی کی اوراق گردانی کرے۔

پختون کی بیٹی – باب سوئم

پختون والی’

اماجان نے گفتگو شروع کی۔ آج ہم پختون والی کاجائزہ لیں گے۔

پختون یا پٹھان کا اجتماعی رہن سہن ایک رسم و رواج کے مجمو عہ پر منحصر ہے جو ‘پختون والی’ کہلایا ہے۔

پختون والی ، پختون کو ‘ عزت’ کے اصول بتاتے ہیں۔ پختون کے لے ‘ عزت’ بہت اہم ہے۔

ماں بولی ۔ ” پٹھان کے لے ‘ عزت’ زبردست ذمہ دا ری ہے اور وہ عزت یا بے عزتی کو دنیا کی دوسرے معاشروں کی طرح نہیں دیکھتا۔ یہ قوانین پختون کے عمل واعمال پر بہت اثر کرتے ہیں اور ایک پشت سے دوسری پشت پختونوالی کے رسم و رواج پاک سمجھے گے ہیں”۔

پختون کا ایک بہت مشہور شاعر خوش حال خان خٹک کہتا ہے۔”میں اس شخص کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہوں جو اپنی زندگی عزت سے نہ گزارے ۔لفظ عزت مجھکو غصہ دلاتا ہے”۔

“ماں وہ عزت کیا ذمہ داریاں ہیں؟”

” پختون والی کے رسم و رواج پختون پر چار ذمہ داریاں واجب کرتے ہیں “۔

“پہلی، پرانی دشمنیوں اور خون خرابہ کوختم کرنا ہے۔ اور دشمنی کو دوستی میں تبدیل کرنا ہے اور مجرم کو پناہ دینا۔ یہ ‘ ناناواتے ‘کہلاتاہے۔

دوسری، دو فرقوں کے درمیان خون خرابی کو روکنے کیلے جرگہ کا التواے جنگ فیصلہ۔ یہ ‘ تیگا ‘ کہلاتاہے۔

تیسری، انتقام لینے کا فرض ۔ یہ ‘ بدل ‘کہلاتاہے۔

چوتھی، مہمان داری ، عالی ظرفی، دلاوری، سچایئ، سیدھا پن، وطن پرستی، ملک سے محبت اوراسکی خدمت۔ یہ ‘ مل مستیا ‘ کہلاتاہے”۔

ناناواتے

” سعدیہ بیٹا، نانا واتے کے کیا چار مقاصد ہیں؟”

” ایک ، پرانی دشمنیوں اور خون خرابہ کوختم کرنا ہے۔ دو ، دشمنی کو دوستی میں تبدیل کرنا ہے تین، پناہ دینااورچار مہمان نوازی” ۔

ا ماں نے کہا۔”جب ایک لڑنے والا شخص نادم اور شرم گزار ہو کر قبیلہ کے بڑوں کے پاس آتا ہے اور وہ اس بات پر مکمل تیار ہو تا ہے کہ وہ اپنے دشمن کے ساتھ امن سے رہے گا۔ مہمان جو کے بدلہ لیناچاہتا تھا بزرگوں کو صلع و صفایئ کا موقع دےتا ہے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کے مسلہ حل نہ ہو سکے۔ مسلہ حل ہونے کے بعد رحم طلب کرنے والا اپنی اوقات کے مطابق ایک بھینس ، گائے ، کچھ دُنبہ یا بکریاں ذبع کرے سب کی دعوت کرتا ہے”۔

ماں یہ تو ایک شریف النفسی ہے۔ ا س میں کیا خرابی ہے؟ میں نے پوچھا۔

ماں نے کہا۔ ” مجرم کو پناہ دنیا۔ دوسرے معاشرے جو وقت کے ساتھ انسانیت کے اصول میں اصلاح کی طرف کرتے ۔ انہوں نے جرم کرنے دالوں سے پناہ کا حق چھین لیا آپ اگر مجرم ہیں تو آپ کو قانون کے حوالے کیا جائے گا “۔

” کسی بھی پختون کے گھر میںکویئ بھی شخص ، اپنا پیچھا کرنے والے دُشمنوںسے پناہ لے سکتا ہے ۔پناہ لینے والاکسی بھی ذات، عقیدہ، رُتبہ کا ہو، دوست ہو اور یا دُشمن ہو۔”
” میں تم کو اس کی دو مثالیں دونگی”۔ ماں نے کہا۔

پہلی مثال یہ ہے:

” ایک دفعہ پختونستان میں قرضہ دہنے والے او ر قرضہ دارمیں جھگڑا ہوااور قرضہ دینے والا مارا گیا۔

قرضہ دار نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن لوگوں نے تمام راستے بند کردے۔
جب نکل نے کی کو یئ صورت نظر نہیں آیئ تو قاتل نے گاوں کے ٹاور کا رخ کیا اور ٹاور پر پہنچ کر چلایا۔

اللہ کے نام پر مجھ کو پناہ دو۔ ٹاور میں رہنے والے سردار نے قاتل سے معلومات کیں اور اس کو پتہ چلا کے جو شخص قتل ہوا وہ اسکا بھایئ تھا۔

سردار نے کہا ـ” تم نے میرے بھایئ کو قتل کیا ہے، مگر کیوں کے اللہ کے نام پر تم نے پناہ مانگی ہے اس لے اللہ کے نام پر میں تم کو پناہ دیتا ہوں ” ۔ سردار نے قاتل کو اندر آنے دیا۔

جب تعاقب کرنے والے وہاں پہنچے تو سردار نے ان کو سختی سے چلے جانے کو کہا۔جب تعاقب کرنے والے چلے گے اس نے قاتل سے کہا کہ میں تم کو ایک گھنٹہ کا وقفہ دیتا ہوں تم یہاں سے سلا متی سے چلے جاؤ ۔

قاتل اُس وقت تو بچ گیا ۔

کانررے ٹیگا

مقابلہ کرنے ولالے دو قبیلوں کے درمیان خون خرابہ کوختم کرنے کی ایک دوسری رسم ٹیگا کہلاتی ہے۔ ٹیگا کے لغوی معنی ‘پتھر گاڑدینا ‘ہے۔دوسرے الفاظ میں جرگہ ایک دفعہ جب وقعتی صلایئ کرتا ہے تو دونوں طرف لوگ اس کو توڑ نے سے اس لئے ڈرتے ہیں کہ سزا ملے گی۔
اگر ایک طرف کے لوگ ٹیگا کو توڑ تے ہیں تو جرگہ پھر قوت کے زور پر جرمانہ وصول کرتا ہے۔ وہ ٹیگا توڑ نے والے کا گھر جلا دےا جاتا ہے۔ان کو اپنے علاقہ سے نکال دے جاتا ہے۔ یہ کام لشکر کی مدد سے کیا جاتا ہے۔ لشکر گاوں کی فوج ہوتی ہے۔

میل مستیا

میل مستیا ایک مہمان داری کی رسم ہے۔ یہ مہمان داری دشمن اور دوست اور اجنبی سب سے برابر کی ہوتی ہے۔

ہرگاوں میں ایک سب کے ملنے کی جگہ ہوتی ہے جسے ‘ہجرہ ‘ کہتے ہیں۔مہمان عموماً ہجرہ میں ٹہرتے ہیں۔ میزبان ، مہمان کے لے دنبہ یا بکرا کا گوشت تیار کرتا ہے اور حلوہ تیار کرتا ہے۔ اگر میزبان اس قابل نہیں کے دنبہ یا بکرا کرے تو وہ مرغی بنا تا ہے۔
ہار کالا راشا، پا خیر راغلے ، ایستارے ماشے ، اور تاکررا یے ۔ انکا مطلب ہے کہ ہمشہ آو، خوش آمدید، امید ہے کہ تم تھکے نہ ہو۔ کیا تم اچھے ہو؟ مہمان خوشی سے کہتا ہے۔ پا خیر اوسے، خدایا دے مال شا، خوش حا اوسے، ما خوارے گے۔ جن کا مطلب ہے۔ خدا تم کو حفاظت سے رکھے، خدا تمہارے ساتھ ہو، تم خوش حال اور خوش رہو، تم بے حس نہ ہو۔ پہلے چائے پیش کی جاتی ہے اور پھر حلوہ، پلاؤ اور دوسرے لوازمات۔ جب مہمان رخصت ہوتاہے تو پا مخا دے خا۔تمہارا سفر بغیر خطرہ اور اچھا رہے۔
ہر مہمان سارے گاؤں کا مہمان سمجھا جاتاہے۔ اور ہجرہ میں سب اس کی دیکھ بال کرتے ہیں۔اور مہمان دسترخوان پر گاوں کے بڑوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتا ہے۔ پختون کا اصول ہے کہ مہمان اگرچے کے اسکا پیٹ بھرا ہو پھر بھی گاوں کے لوگوں کے ساتھ کم از کم کچھ لقمے کھائے۔ کھانے کے بعد نماز اور مہمان کی خوش حالی اور مہمان نوازی کیلے دعا ما نگی جاتی ہے۔

ڈاکٹر پینل بنوں اور اس کے اردگرد کرے علاقے میں ایک میشنری ڈاکٹر تھا۔ وہ لکھتا ہے۔ ـ” ایک موقع پر وہ اور اسکا ایک ساتھی ایک گاؤں میں رات کو دیر سے پہنچے۔ سردار گھر پر موجود نہیں تھا اسکا لڑکا بڑے خلوص سے ملا اور فوراً مرغ اور پلاؤ بنواکر پیش کیا۔ سردار رات کو گھر دیر سے پہنچا۔ جب اس کو پتہ چلا کہ بنوں کے پادر صاحب اسکے مہمان ہیںاور اس کے لڑکے نے صرف مرغ اور پلاؤ کھانے میں پیش کیےئ اس نے فوراً باورچی سے دنبہ ذبع کروا کر پکوایا۔

ماں نے مجھ سے پوچھا ۔پختون کی مہمان نوازی کی کیا خصوصیات ہیں؟

میں نے جواب دیا۔ ” ایک ۔ دوست ، دشمن یا اجنبی ہر شخص کے ساتھ مہمان نوازی ۔ دو۔ ہجرہ میں مہمان کو ٹھرانا۔ تین ۔ حیثیت کے بڑھ کر کھانابنانا۔ چار ۔ مہمان، پورے گاوں کا ہویا ہے۔ پانچ۔ مہمان گاوں کے بڑوں اور دوسرے لوگوں کے ساتھ کم از کم کچھ لقمے کھائے۔ چھ۔ کھانے کے بعد نماز اور مہمان کی خوش حالی اور مہمان نوازی کیلے دعا ما نگی جاتی ہے۔

٭٭٭

” پاکستان کے شمال مغرب میں کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے۔ اس سرحدی علاقے میں ٧ مشہور درہ ہیں۔ درہ خیبر، درہ مالاکند ، درہ گنداب، درہ کوہاٹ، در ہ نیگاش، در ہ گومل ، در ہ ٹوچی اور درہ بولان۔ پانچ دریا ہیں۔ پختونیستان میں دریا سوات، دریاخرم ، دریاٹوچی اوردریا گومل بہتے ہیں۔ پختونیستان میں رہنے والے پشتون، پختون اور پھٹان کہلاتے ہیں۔

پختون کون ہیں اور کہاں سے اس علا قہ میں آے کسی کو اس کا صحیح پتہ نہیں۔ لیکن ان کے مطلق چار قیاس آرایئ ہیں۔

مشہور عالم البیرونی نے جو دسویں صدی میں غزنی میںرہا ‘ اس نے تاریخ الہند ‘ میں پختون کے مطلق لکھا ہے۔ ” ایک باغی اور جنگلی قوم ہندوستان کے مشرق میں بستی ہے۔”

میجر ارٹی ای ریج وے نے اٹھارویں صدی میںاپنی کتاب ‘پھٹان’ میں لکھا۔ پھٹان حضرت سلیمان کے سپہ سالارجےر ے مایہ کے بیٹے افغانہ کی اولاد ہیں” ۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ جوزف کی اولاد ہیں۔ جوزف کا قبیلہ اُن دس یہودی قبیلوں میںشمار ہوتا ہے جو کھوئے ہوے لوگ کہلاتے ہیں۔

بعض تاریخ دان کہتے ہیں کے پختون کے نقش و نگا ر اُن قومیں سے جو دریا سندھ کی دوسری طرف رہتی ہیں ملتے ہیں۔ان میں ترکی اور ایران بھی شامل ہیں۔

اور دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ پٹھان قوم عرب سے قریب ہیں۔جب ہم عرب اور پھٹان قوم کی قبیلہ بندی اور سماجی استعمال کا مطالحہ کتے ہیں تو دونوں میں حیرت انگیز مشاہبت ہے۔

اسلام سے پہلے عرب میں بھی آذادی سے عشق، شجاعت، برداشت، مہمان نوازی، اور انتقام لینا کے فرض موجود تھے۔

پختون مرد عموماً ڈھیلی قمیض اور شلوار پہنتا ہے اور ایک بڑی پھگڑی بانتا ہے۔اپنے کندھے پر ایک چادر اور ایک رائفل رکھتا ہے۔ پختون عورتیں عموماً چھاپے ہوے کپڑے پہنتی ہیں۔

تمام حملہ آور ایرانی، یونانی، ترکی، مغل، افغانی، سکھ اور انگریز جنہوں نے شمالی ایشا کو فتع کیا پختون کو نہ ہرا سکے۔

پہاڑی پختونً یوسف زایئ، محمند، آفریدی، شنواریز، آرکزایئ، توریس، بانگاش، خٹک، وزیر، اورمسحود ، مرد وں کی سوسائٹی ہے اور نئے قوانین کو بلکل نہیں مانتے پختون بڑے مغرور لوگ ہیں۔ پختون لیڈر خان ولی خان نے ایک دفعہ کہا۔ ” میںپانچ ہزار سال سے پختون ہوں اور مسلمان چودہ سو سال سے اور پاکستانی صرف چالیس سال سے” ۔

دو خیال ۔

‘مہمان نوازی’ اور مجرموں کو پناہ دینا دونوں مختلف ہیں وہ ایک چیز نہیں ہیں۔ پختون کے علا قہ اورپختون کی فلاح و بہبود کے لے ـ ان کو علیحدہ کرنا چائیے۔

اسلام

علم فقہ کی بنیاد تین چیزوں پر ہے۔

اقران کا قانون بنانے والا حصہ،
سنّت۔جس طرح رسول نے اپنی زندگی گزاری ،
حدیث ، روایت پر
ایک حدیث میں رسول نے کہا۔ “مذہب وہ نہیں ہے جو آپ رسموں کی طرح باقاعدہ مشق کرتے ہیں بلکہ وہ ہے جو آپ اپنا تے ہیںاورایک دوسرے سے حصہ کرتے ہیں۔

سماجی طریقہ اور اسلامی اخلاقیات

ایک دفعہ حضور صلم مسجد میں داخل ہوے اور دیکھا کہ ایک بوڑھا شخص تسبیح پڑھ رہا ہے۔ حضور صلم کو بتایا گیا کہ یہ شخص سارا دن مسجد میں گزار تا ہے اور دوسروں کو بھی تبلیغ کرتا ہے۔تو حضور صلم نے پوچھا۔کہ یہ اپنی روزی کیسے کماتا ہے۔ حضور صلم کو بتایا گیا کہ ا یک خدا پرس تاجر اسکے اخراجات ادا کرتا ہے۔ حضور صلم نے کہا ان دونوں میں تاجر کا درجہ بڑا ہے۔

ایک حدیث میں یہ کہا گیا ہے۔ حضور صلم نے فرمایا۔ “اگرکویئ تمہارے درمیان کسی کو غلطی کرتا دیکھے تواسکا فرض ہے کہ ہاتھوں یعنی عمل، خوش اطوار، اصرار سے اسکو صحیح کرے۔ اگر نہیں تو پھر زبان سے یعنی اس کے خلاف بولے۔اگر تب بھی غلطی موجود رہے تو خاموشی سے ناپسندید گی کا اظہار کرے اور اگرسامنے نہیں تو دل میں کرے ۔ دل میں ناپسندید گی کا اظہار کا درجہ واثق کی نشانی ہے۔

]اسلام ، بالغیت، عورت اور شادی۔

١۔ اسلا م میںچار عورتوں تک شادی جایئز ہے۔ ” اگر یہ خوف ہے کہ تم یتیموں(جن کو تم نے رکھا) کے ساتھ انصاف نہ کرو گے تو جو تم کو اچھی لگیں ان دو یا تین یا چارعورتوں سے شادی کرلو۔اگر تم ان کو حق نا دے سکو تو ایک سے شادی کرو۔ “(سورۃ ا لنساء )

٢۔ اسلام میں عورت کو ڈاوری یا مہر یا والور دینا جایئز ہے۔ ” اور عورتوں کو ڈاوری کا تحفہ دو۔لیکن اگر اپنی مرضی سے اسکے کچھ حصہ تم کو دیںتو تم اس کو خوشی سے لے لو۔” (سورۃ ا لنسا ء )

٣۔اسلام میں لڑکی اپنی پہلی ماہواری کے بعد بالغ کہلاتی ہے۔ بعض علاقوں میں لڑکیوں کی ماہواری ٩ سال سے ١٢ سال کی عمر میں ہوتی ہے۔ ” کچھ اور تمہاری عورتیں جو کے ماہواری سے گزر چکی ہیں۔اگر تم کو شک ہو تو تین مہینہ کا انتظارکروـ” (سورۃ ا لنسا ئ)

٤۔” یتیموں کو جانچوں اگر وہ شادی کی عمر کے ہیں اور تم ان کو سمجھ دار سمجھتے ہو توان کو ان کی ملکیت واپس دے دو۔” (سورۃ ا لنسا ء )

٥ـ ” اور مرد بالغ جب ہوجاتا ہے جب وہ چالیس سال کا ہوجاتاہے۔”(سورۃ الاحقاف)

محراب و منبر – قرآن پاک کی نظر میں بےوقوف کون ہیں؟

اَلحَمدْ لِلہِ وَکَفٰی وَسَلاَ م عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِینَ اصطَفٰی اَمَّا بَعدْ

فَاَعْوذْ بِاللہِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیمِ

بِسمِ اللہ ِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ

وَ ذَرْوا ظَاھِرَ الاِثمِ وَ بَاطِنَہ وَ قَالَ تَعَالٰی اِن اَولِیَاء ْ ہ اِلَّا المْتَّقْونَ وَقَالَ رَسْولْ اللہِ صَلَّی اللہْ تَعَالٰی عَلَیہِ وَسَلَّمَ لَا بَاسَ بِالغِنَاء ِ لِمَنِ اتَّقَ اللہَ عَزَّوَجَلَّ وَقَالَ رَسْولُ اللہِ صَلَّی اللہْ تَعَالٰی عَلَیہِ وَسَلَّمَ

مَنِ اتَّقَ اللہَ صَارَ اٰمِنًا فِی بِلَادِہ

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان اور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ابھی آپ کو سنائے جائیں گے لیکن اس سے پہلے ایک سنت کی تعلیم دیتا ہوں۔ جب چراغ بجھ جاتا تھا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اِنَّا لِلہِ پڑھتے تھے، کانٹا چبھ جائے، جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے یا چراغ بجھ جائے ان سب مواقع پر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے اِنَّا لِلہِ پڑھنا ثابت ہے۔ علامہ آلوسی السید محمود بغدادی نے اپنی کتاب تفسیر روح المعانی میں اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیہِ رَاجِعْونَ کی تفسیر میں یہ حدیث بیان فرمائی ہے:

کْلّْ مَا یُؤذِی المْومِنَ فَھْوَ مْصِیبَۃٌ لَہ وَ اَجر

ہروہ چیز جس سے مومن کو تکلیف پہنچے مصیبت ہے اور اس پر مومن کے لیے اجر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ مومن کو جب کوئی مصیبت پہنچے تو وہ اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیہِ رَاجِعْونَ پڑھ لے۔ آج کل تو لوگ موت ہی پر اِنَّا لِلہِ پڑھتے ہیں، اگر کسی اور موقع پر کسی نے اِنَّا لِلہِ پڑھ لیا تو سب گھبرا جاتے ہیں کہ بھئی کس کا انتقال ہوگیا حالانکہ یہ بات نہیں ہے بلکہ جو بات مومن کو تکلیف دے وہ مصیبت ہے اور اس پر اِنَّا لِلہِ پڑھنا سنت ہے۔

سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم ان مواقع پر اِنَّا لِلہِ پڑھا کرتے تھے، عِندَ انطِفَاء ِ السِّرَاجِ، انطفاء بجھنے کو کہتے ہیں یعنی چراغ کے بجھنے پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اِنَّا لِلہِ پڑھا کرتے تھے، وَ عِنْدَ لَسعِ البَعْوضَۃِ جب مچھر کاٹتا تھا تو اس وقت بھی اِنَّا لِلہِ پڑھتے تھے، عِندَ انقِطَاعِ الشَّسَعِ جوتے کا تسمہ ٹوٹنے پر اِنَّالِلہِ پڑھتے تھے، اسی طریقے سے عِندَ لَدغِ الشَّوکَۃِ کانٹا چبھ جانے پر بھی آپ اِنَّا لِلہِ پڑھتے تھے۔ غرض آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے چھوٹی چھوٹی تکلیف پر اِنَّا لِلہِ پڑھا ہے۔

چونکہ میں نے یہ حدیث سنی ہوئی تھی لہٰذا جب ہمارے یہاں بجلی فیل ہوتی ہے تو میں اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیہِ رَاجِعْونَ کی سنت ادا کرتا ہوں، بجلی فیل ہونے سے گھر میں جو اندھیرا ہوتا ہے اس اندھیرے میں یہ سنت ادا کرنے سے اس سنت کا نور ہمارے دل میں غالب ہوجاتا ہے اور دل میں ایک ٹھنڈک سی محسوس ہوتی ہے اور جو اس سنت پر عمل نہیں کرتے جیسا میں نے بعض لوگوں کو دیکھا کہ جب بجلی فیل ہوئی تو کے ای ایس سی والوں کو گندی گندی گالیاں دیتے ہیں۔ اب فرق دیکھئے! کچھ لوگ کے ای ایس سی والوں کو گالیاں دے رہے ہیں اور کوئی سنت ادا کررہا ہے۔ تو تربیت یافتہ اور غیر تربیت یافتہ انسان میں کتنا فرق ہوجاتا ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے نوازتے ہیں اس کا غم بھی اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ بن جاتا ہے، بجلی فیل ہونے سے غم ہوتا ہے، تکلیف ہوتی ہے مگر سنت کی اتباع کی برکت سے وہ تکلیف بھی لذیذہوجاتی ہے

آلامِ روزگار کو آساں بنا دیا
جو غم ملا اْسے غمِ جاناں بنا دیا

آلام جمع ہے الم کی، اللہ تعالیٰ سے جب تعلق نصیب ہوتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اپنے بندے کے ہر غم کو لذیذ کردیتے ہیں۔ جیسے کڑوے خربوزے کو سکرین لگی چھری سے کاٹو تو سارا خربوزہ میٹھا ہوجاتا ہے، اور یہ سکرین کس نے پیدا کی؟ اللہ تعالیٰ نے۔ جب شکر میں یہ خاصیت ہے کہ وہ کڑوے خربوزے کو میٹھا کردیتی ہے تو اللہ تعالیٰ جو شکر کا خالق ہے ان کا نام لینے میںیہ خاصیت نہ ہوگی کہ ہمارے غم کو میٹھا کردے؟ افسوس کہ آج ہم اپنی مٹھاس کو اللہ کی نافرمانیوں میں تلاش کررہے ہیں، کم از کم یہ احساس تو ہو نا چاہیے کہ خدائے تعالیٰ کی نافرمانیوں میں سوائے عذاب کے، اللہ کے غضب اور بے چینی کے کچھ نہ ملے گا۔

اگر گناہوں کا مرض شدید ہو تو مجاہدہ کرو، جس کو کوڑھ ہوجاتا ہے تو کیا وہ خود کشی کرلیتا ہے؟ اگر مرض جلد اچھا نہیں ہوتا تو بھی صبر سے علاج کرتا ہے۔ اسی طرح اگر نظر بچانے میں شدید تکلیف ہو تو مجاہدہ کرو۔ مولانا اسعد اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ شیخ الحدیث مظاہر العلوم سہارنپور حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ اور میرے شیخ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم کے استاذ جو شاعر بھی تھے اور بڑے ہی اللہ والے تھے، وہ فرماتے ہیں کہ لوگ مجبوریوں کا بہانہ کردیتے ہیں کہ صاحب آج کل بہت مشغولی ہے اس لیے ذکر چھوٹا ہوا ہے، ان سے کہہ دو کہ آج مشغولی کی وجہ سے روٹی بھی چھوڑ دو، اس نے مشغولی میں ناشتہ کیوں نہیں چھوڑا؟ جسمانی غذا کو تو نہیں چھوڑا مگر جس روح کے صدقے میں آج چائے انڈا کھا رہے ہیں اس روح کو ناشتہ نہ کرانا، اس کو اللہ کے ذکر کی غذا نہ دینا روح کو مردہ کرنا ہے۔ اسی کو مولانا اسعد اللہ صاحب فرماتے ہیں

گوہزاروں شغل ہیں دن رات میں
لیکن اسعد آپ سے غافل نہیں

یہی تو اﷲ والوں کا کمال ہے کہ دنیا کے ہزاروں شغل میں بھی اﷲ کو یاد رکھتے ہیں۔ دیکھو! ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ ایک لاکھ حدیث کے حافظ، چودہ جلدوں میں بخاری شریف کی شرح فتح الباری لکھی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء کا ذکر فرشتوں کے ذکر سے افضل ہے، یہ بخاری شریف کی شرح فتح الباری کی عبارت نقل کررہا ہوں۔ وہ پیری مریدی یا وہ تصوف جو قرآن و حدیث کی تفسیروں سے اور شرحوں سے ثابت نہ ہو، اللہ کے کلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں جو تصوف نہ ہو وہ تصوف مقبول نہیں ہے۔ تصوف تو نام ہے اللہ کی عبادت میں محبت کی چاشنی ملادینے کا۔

جو عبادت خشک ہو جس میں محبت کی چاشنی نہ ہو اس کی مثال ایسی ہے جیسے چاول بغیر سالن کے۔ میرے شیخ شاہ عبد الغنی پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ پورب کا ایک مجذوب اللہ تعالیٰ کے قرب اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کی لذت سے کچھ دن کے لیے محروم کردیا گیا، اس حالت کا نام حالتِ قبض ہے۔ تو وہ مجذوب روتا تھا اور اپنی پوربی زبان میں کہتا تھا کہ’’ دلیا بنا بھتوا اداس موری سجنی‘‘ یعنی دال کے بغیرمیرا چاول بے مزہ ہے۔

سالک پر دو حالتیںپیش آتی ہیں حالتِ قبض اور حالتِ بسط۔ حالتِ بسط میں عبادت میں مزہ آتا ہے جبکہ حالتِ قبض میں دل گھبرایا گھبرایا سا رہتا ہے، عبادت میں مزہ نہیں آتا مگر حالتِ قبض کا درجہ حالتِ بسط سے زیادہ ہے کیونکہ حالتِ قبض میں ناز ٹوٹ جاتا ہے، عجب و تکبر ٹوٹ جاتا ہے، آدمی کہتا ہے کہ ہائے ہم تو کچھ بھی نہیں، اپنی عبادت کو بالکل ہی حقیر نظروں سے دیکھتا ہے کہ ہائے یہ میں کیا کرتا ہوں۔ تو مزہ نہ آنے سے ناز و عجب ٹوٹ جاتا ہے لیکن پھر بھی وہ استقامت کے ساتھ رہتا ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان ہوتا ہے کہ یہ بندہ عبد اللطف ہے یا عبداللطیف ہے یعنی مزے کا غلام ہے یا ہمارا غلام ہے، جب اس کو مزہ ملتا ہے تب ہمارا نام لیتا ہے جب مزہ نہیں ملتا تو ہماری غلامی کو چھوڑ دیتا ہے، یہ امتحان ہوتا ہے۔ اسی لیے علامہ ابوالقاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس شخص کی دعا فوراً قبول ہوگئی ابھی مانگا اور شام تک قبول ہوگئی، اب وہ مارے شکریہ کے خوب عبادت کررہا ہے لیکن لَقَد قَامَ بِحَظِّ نَفسٍ یہ اللہ کے سامنے اپنے نفس کی خوشی کی وجہ سے کھڑا ہے اور جس کی دعا قبول نہیں ہوئی، غمزدہ آدمی ہے، شکستہ دل ہے، ٹوٹا ہوا دل ہے وہ اگرچہ نامراد اور ناشگفتہ ہے مگر

وہ نامراد کلی گرچہ ناشگفتہ ہے

ولے وہ محرمِ رازِ دل شکستہ ہے

یہ میرا شعر ہے۔ اب آپ کو ٹوٹے ہوئے دل کی قیمت معلوم ہوئی۔ حدیثِ قدسی ہے:

اَ نَا عِندَ المْنکَسِرَۃِ قْلْوبُھُم

(مرقاۃْ المفاتیح، کتابْ الجنائز، باب عیادۃ المریض)

اس حدیث کی تطبیق اور سند کی تائید محدثِ عظیم ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب میں کی ہے اور لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں ٹوٹے ہوئے دل میں رہتا ہوں۔ یہ جو لوگ پوچھتے ہیں کہ اللہ میاں نے خواہشات کیوں پیدا کیں جب ان کو توڑنا تھا؟ اس کا جواب اسی حدیث میں موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے دل میں تقاضے اور خواہشات اس لیے پیدا کیں کہ ان میں جو تقاضے اور خواہشات اللہ کی مرضی کے خلاف ہیں بندہ ان کو توڑ دے یعنی اپنے دل کو توڑدے اور اس ٹوٹے ہوئے دل میں اللہ کو حاصل کرتا رہے۔ خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں

نہ گھبرا کوئی دل میں گھر کر رہا ہے

مبارک کسی کی دل آزاریاں ہیں

اور فرمایا کہ اﷲ کی یاد کے صدقے میں غموں کا کیا حال ہوتا ہے؟ جو اللہ کو یاد کرتے ہیں ان کے غم بھی میٹھے کردئیے جاتے ہیں۔ فرماتے ہیں ؎

سوگ میں یہ کس کی شرکت ہوگئی

بزمِ ماتم بزمِ عشرت ہوگئی

اللہ کے نام کے صدقے میں اللہ کے راستے کے غم بھی لذیذ ہوجاتے ہیں لیکن اگر غم میں کسی اﷲ والے کے آنسو نکل آئیں تو یہ نہ سمجھو کہ یہ باباکے دعویٰ کے خلاف ہے کیونکہ یہ تو رو رہے ہیں۔ حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے مصیبت میں رونا بھی ثابت ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کا انتقال ہوا تو سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم رو رہے تھے اور فرمارہے تھے اِنَّا بِفِرَاقِکَ یَااِبرَاھِیمُ لَمَحزْونْونَ اے ابراہیم! میں تمہاری جدائی سے غمزدہ ہوں اور آپ کے آنسو بہہ رہے تھے لیکن دل میں اللہ کی تسلیم سے چین ہوتا ہے، لطف ہوتا ہے، لذت ہوتی ہے۔

اس لیے میرے دوستو! تسلیم کی برکت سے جب اللہ کی مرضی پر بندہ راضی رہتا ہے تو جیسے کوئی مرچ والا کباب کھائے اور مرچوں کی وجہ سے سی سی کرے اور آنکھوں سے آنسو بھی جاری ہوں اور جو پاس بیٹھا ہو وہ یہ کہے کہ آپ تو مصیبت زدہ معلوم ہورہے ہیں، آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں، یہ کباب آپ کیوں نوش کررہے ہیں؟ اس بلا کو چھوڑ دیجئے۔ تو وہ کہے گا کہ بیوقوف یہ بلا نہیں ہے، یہ آنسو مزے کے ہیں، لذت کے ہیں، یہ مصیبت کے آنسو نہیں ہیں ،اللہ والے اگر کبھی رو بھی پڑیں تو ان کی آنکھیں روتی ہیں دل تسلیم ورضا کی لذت سے مست ہوتا ہے ؎

حسرت سے میری آنکھیں آنسو بہا رہی ہیں

دل ہے کہ ان کی خاطر تسلیمِ سر کیے ہوئے

آرزو کے شکست ہونے سے آنسو بہہ سکتے ہیں کہ مراد پوری نہیں ہوئی لیکن علامہ ابو القاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ جو بہت بڑے اولیاء اللہ میں سے ہیں اور حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ جو لاہورمیں مدفون ہیں ان کا اور علامہ ابو القاسم قشیری کا زمانہ ایک تھا۔ تو وہ فرماتے ہیں کہ جس کی دعا قبول نہیں ہوئی، آرزو کی تھی مگر اللہ نے بظاہر وہ آرزو پوری نہیں کی یعنی جو دعا مانگی تھی اس کا ظہور نہیں ہوا، لیکن پھر بھی اللہ کی عبادت کیے جارہا ہے یہ اللہ تعالیٰ کا بہت محبوب بندہ ہے، اللہ کے نزدیک اس کا بہت بڑا درجہ ہے۔

مومن کی کوئی دعا رد نہیں ہوتی، محدثین لکھتے ہیں کہ دعاکی قبولیت کی چار قسمیں ہیں، چاہے تو جو مانگا اﷲ وہی دے دیں، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اس سے بہتر چیز عطا کر دیتے ہیں، کبھی دنیا میں نہیں دیتے آخرت میں اس کا بدل دے دیتے ہیں اور کبھی اس کے بدلے میں کوئی بلا و مصیبت ٹال دیتے ہیں۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی قبولیت کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ دعا فوراً قبول ہوجاتی ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرما رہے ہیں اْدعْونِی اَستَجِب لَکْم ہم سے مانگو، ہم قبول کریںگے۔

لیکن قبولیت کی شکلیں مختلف ہوتی ہیں جو ابھی بیان ہوئیں جو زبانِ نبوت سے اس آیت کی تفسیر ہے اس کی وضاحت کے لیے ایک مثال بھی سن لیجیے کہ جیسے بچہ ابا سے اسکوٹر مانگتا ہے اور ابا کار خرید دیتا ہے تو کیا اس کی درخواست قبول نہیں ہوئی؟ بیٹے نے سو روپیہ مانگا ابا نے پانچ سو روپیہ دے دیا تو کیا اس کی یہ بات قبول نہیں ہوئی؟ تو کبھی اللہ تعالیٰ وہ چیز نہیں دیتے جو بندہ مانگتا ہے بلکہ اس سے بہتر چیز دے دیتے ہیں اور کبھی اللہ تعالیٰ دیر سے دیتے ہیں تاکہ بہت دن تک ہم سے دعائیں مانگتا رہے، ہماری چوکھٹ پر گڑگڑاتا رہے، روتا رہے ورنہ جہاں دعا قبول ہوئی فوراً یہ جا، وہ جا۔ اور کبھی اللہ تعالیٰ اس دعا کا بدلہ قیامت کے دن دیںگے اور اتنا دیں گے کہ حکومتِ سعودیہ بھی اتنا بدلہ نہیں دے سکتی۔ جب حرم کی توسیع ہوتی ہے (اس میں دونوں حرم شامل ہیں خواہ مدینے کا حرم ہویا مکہ شریف کا ہو) تو اس توسیع میں اگر کسی کا مکان آجاتا ہے تو حکومتِ سعودیہ ایک لاکھ ریال کے مکان کے بدلے پچاس لاکھ ریال دیتی ہے، اتنا دیتی ہے کہ لوگ تمنائیں کرتے ہیں کہ کاش میرا مکان حکومت کی توسیع میں آجائے۔

شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ پوچھیں گے کہ اے میرے بندے تیری کون کون سی دعائیں قبول نہیں ہوئیں جو تو نے دنیا میں مانگی تھیں پھر اللہ تعالیٰ اس کا اتنا بدلہ دیں گے کہ یہ شخص کہے گا کہ کاش دنیا میں میری کوئی دعا قبول ہی نہ ہوئی ہوتی۔ اس لیے اگر دعا کا ظہور نہیں ہورہا تو دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے، اﷲ سے مانگنا ہی کیا کم لطف ہے جو آپ دعا کے ظہور ہونے کا بھی انتظار کررہے ہیں۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎

از دعا نبود مرادِ عاشقاں

جز سخن گفتن بآں شیریں دہاں

دعا مانگنے سے بہت سے عاشقوں کی مراد سوائے اس کے کچھ نہیں ہوتی کہ اسی بہانے اس محبوبِ حقیقی سے لذت مناجات اور گفتگوکا موقع مل جاتا ہے، اللہ کے عاشق انتظار نہیں کرتے کہ دعا کب قبول ہوگی، وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دعا مانگنے ہی میں مست ہوتے ہیں، اﷲ کے ساتھ مناجات کی لذت میں ان کو اتنا مزہ آتا ہے کہ خواجہ صاحب فرماتے ہیں ؎

امید نہ بر آنا امید بر آنا ہے

ایک عرضِ مسلسل کا کیا خوب بہانہ ہے

اللہ تعالیٰ سے مسلسل دعاوں کے لیے ان کے حضور ہمارے ہاتھ اْٹھتے رہیں یہ کیا کم اعزاز ہے۔ ڈاکٹر عبدالحی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جب مومن دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہے، تو یہ ہاتھ خدا کے سامنے ہوتے ہیں اور ساری کائنات ان کے نیچے ہوتی ہے، کیا بات فرمائی سبحان اللہ! دعا مانگنے والے کا یہ مقام میں نے حضرت ڈاکٹر صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے خود سنا فرمایا کہ جب بندہ دعا کے لیے اﷲ تعالیٰ کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے تو ساری کائنات اس کے ہاتھوں کے نیچے ہوتی ہے اور وہ خداکے سامنے ہوتا ہے، کیا یہ کم نعمت ہے؟ ہاں! اللہ سے امید رکھے کہ شاید اب قبول ہوجائے، شاید اب قبول ہوجائے۔

تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اُدعْونِی اَستَجِب لَکْممجھ سے مانگو، میں قبول کروں گا۔ سرورِعالم صلی اللہ علیہ وسلم جن پر قرآن نازل ہوا، جن کی ذاتِ پاک اور ذاتِ گرامی پر یہ آیت نازل ہوئی اْن ہی نے اس کی تفسیر بیان فرمائی۔ اگر کوئی کہے کہ صاحب ہم نے تو بہت دعا مانگی لیکن ہماری دعا تو قبول نہیں ہوئی تو نعوذباللہ کیا قرآن غلط ہو جائے گالہٰذا یہ سب قبولیت کی قسمیں ہیں، ہوسکتا ہے جو مانگا ہے اﷲ تعالیٰ اس سے بہتر دے دیں۔ مثال کے طور پر کوئی شخص کہتا ہے کہ اللہ میاں ہماری شادی بہت حسین عورت سے ہوجائے

نازْکی اْس کے لب کی کیا کہیے

پنکھڑی ایک گلاب کی سی ہے

وہ اللہ میاں کو دیوانِ غالب پیش کررہا ہے،کہ مجھے ایسی بیوی چاہیے، چہرہ کتابی چاہیے جیسے اخباروں میں رشتے کے طالبین لکھتے ہیں کہ چہر ہ کتابی ہونا چاہیے لیکن اللہ نے اس معیار کی حسین بیوی نہیں دی بلکہ اس کے بدلے دیندار بیوی دے دی۔ اسی لیے حدیث میں ہے کہ دین کو زیادہ اہمیت دو حسن کو زیادہ اہمیت مت دو کیونکہ حسن عارضی ہے جبکہ سیرت سے ساری زندگی سابقہ پڑے گا۔ اگر بیوی سیر ت کی کٹکھنی ہے، تو تو کرنے والی ہے تو بھی صبر سے کام لو، صورت کب تک رہے گی، چند بچے ہوجانے کے بعد صورت میں تبدیلی ہوجاتی ہے پھر آخر میں سیرت ہی سے پالا پڑے گا لہٰذا جس میں دین زیادہ ہو اس کو تر جیح دو اور اگر دونوں چیزیں ہیں تو پھر سبحان اللہ۔

لیکن میرے دوستو! بعض نالائق اور بددین لوگ حسن کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ چاہے فلم ایکٹر ہو، چاہے بے پردہ اور مخلوط تعلیم سے اس کے بالکل ہی اخلاق نہ ہوں مگر ایک نظر دیکھا اور پاگل ہوگئے، یہ شخص واقعی پاگل ہے جو صورت کو دیکھتا ہے اللہ کے تعلق کو نہیں دیکھتا۔ اس کو یہ دیکھنا چاہیے کہ بیوی کو اللہ تعالیٰ سے کتنا تعلق ہے، وہ تلاوت کرتی ہو، نماز پڑھتی ہو، دیندار ہو ورنہ اگر شوہر بیمار پڑ گیا تو بھاگ گئی، شوہر پر فالج گر گیا تو ایک دو تین ہوگئیں، جب دیکھا کہ شوہر بے کار ہوگیا ہے تو طلاق لے کر دوسرے سے شادی کرلی۔ اس لیے اگر وفاداری چاہیے تو دین دیکھو۔

امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں آپ کو معلوم ہے کہ کتنے حسین تھے۔ علامہ شامی ابن عابدین رحمۃ اللہ علیہ کتاب الحظر و الاباحۃ جلد نمبر پانچ میں لکھتے ہیں کہ امام محمد اتنے خوبصورت تھے کہ ان کی طالبِ علمی کے زمانے میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ان کو اپنے پیچھے بٹھاتے تھے تاکہ ان پر نظر نہ پڑے، نظر کی حفاظت کرتے تھے، اَنَّ اَبَاحَنِیفََۃَ رَحِمَہْ اللہُ تَعَالٰی کَانَ یُجلِسُ اِمَامَ مْحَمَّدٍ فِی دَرسِہ خَلفَ ظَہرِہ مَخَافۃ عَینِہ مَعَ کَمَالِ تَقوَاہ یعنی امام ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کمالِ تقویٰ کے با وجود امام محمد رحمۃ اﷲ علیہ کو اپنے درس میں پیچھے بٹھاتے تھے، آ نکھوںکی چوریوں کے خوف سے کہ کہیں آنکھیں خیانت نہ کر جائیں۔ علامہ شامی امام ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کے کمالِ تقویٰ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ جس نے چالیس برس عشاء کے وضوء سے فجر کی نماز پڑھی ہو اس کے بارے میں کیا سو چ سکتے ہو؟ لیکن دیکھ لیں کہ یہ ان حضرات کا تقویٰ تھا، یہ چاہتے تھے کہ آنکھوں سے کسی قسم کی خیانت کا شائبہ بھی نہ ہو، یہ اْمت کوسبق دے گئے۔

آج کل لوگ کہتے ہیں کہ ہم اتنی نظر بچائیں گے تو لوگ کہیں گے کہ کوئی بیمار طبیعت کاآدمی معلوم ہوتا ہے، اس میں قوتِ ضبط نہیں ہے حالانکہ یہ سب حماقت کی باتیں ہیں۔ بتائیے! آج اس تقویٰ کی بدولت امام صاحب کی تعریف ہورہی ہے یابدنامی ہورہی ہے؟ تعریف ہورہی ہے کہ نہیں۔ اس لیے سمجھ لو کہ جو اساتذہ اپنے شاگردوں سے احتیاط کرتے ہیں وہی شاگرد بڑے ہوکر استاد کی تعریف کرتے ہیںکہ ہمارے استاذ نے بچپن میں ہم کو آنکھ اْٹھا کر نہیں دیکھا، احتیاط کی۔

امام محمد رحمۃ اﷲ علیہ نے شادی کے بعد چھ کتابیں لکھیں سیر کبیر، سیر صغیر، جامع کبیر، جامع صغیر، مبسوط، زیادات۔ یہ چھ کتابیں حیدر آباد دکن کی لائبریری میں موجود ہیں، ممکن ہے یہاں بھی بڑے بڑے کتب خانوں میں ہوں۔ تو ایک دن امام محمد کے ایک شاگرد ان کا کھانا لینے ان کے گھر گئے تو کسی طرح ان کی نظر امام صاحب کی زوجہ پر پڑ گئی تو دیکھا کہ اپنے استاذکے چہرے کی بہ نسبت بیوی کا بالکل ہی عجیب حلیہ کا جغرافیہ ہے۔ بس روتا ہوا آیا اور کہا کہ استاذ اگر اجازت ہوتو ایک بات عرض کروں، آج استانی صاحبہ پر اچانک نظر پڑگئی، میں نے قصداً نہیں دیکھا، اچانک نظر پڑگئی لیکن اب میں رو رہا ہوں کہ آپ کی قسمت کیسی ہے ؟ آپ کیسے دن گذار رہے ہیں، کس طریقے سے آ پ کے دن کٹتے ہیں، آپ نے اس کا خیال کیوں نہیں کیا کہ جیسا اللہ نے آ پ کو حسن دیا ہے آپ نے ویسی شادی کیوں نہیں کی؟ تو امام صاحب ہنسے اور فرمایا کہ بھئی جوڑے تقدیر سے بنتے ہیں، قضاء اور قدر سے ہوتے ہیں لیکن یہ سوچوکہ میں جو یہ چھ کتابیں لکھ رہاہوں جن کا تم لوگ مجھ سے سبق پڑھ رہے ہو تو اگر میری بیوی بہت زیادہ حسین ہوتی تو اس وقت میں اپنی بیوی سے بات چیت کررہا ہوتا، تم دروازہ کھٹکھٹاتے تو میں کہتا کہ میں بہت بزی (busy)ہوں، بہت ضروری مشغلے میں مشغول ہوں اور جب اس کے سر میں درد ہوتا تب صبر نہ کرسکتا کیونکہ میں بھی مرنے لگتا۔ آج جو میں یہ بڑی بڑی کتابیں تصنیف کررہا ہوں تو ان کتابوں کو لکھنے کے لیے وقت اور فراغِ دل چاہیے۔ اس کے بعد امام صاحب نے ایک جملہ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جس کو اپنے لیے قبول کرتے ہیں اس کو مٹی کے کھلونوں میں مشغول نہیں ہونے دیتے۔ یہ اس عظیم الشان فقیہ کے عظیم الشان الفاظ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا دین اتنا قیمتی ہے کہ اس پر نبیوں کے سر کٹے ہیں، سید الانبیاء کا خون بہا ہے اور سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک دامنِ اْحد میں شہید ہوئے ہیں۔

صاحب اخلاق / حدیث

جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث سنو، عمل کرنے کی نیت سے یاد رکھو نہ کی روایت کرنے کی نیت سے۔ (حضرت شفیق بلخی رحمۃ اللہ علیہ  /

تم ایسے لوگوں کی محفل میں بیٹھو جو درس سلوک دیتے ہیں تاکہ تم بھی صاحب اخلاق گردانے جاؤ۔ (حضرت خواجہ عبدالواحد بن زید رحمۃ اللہ علیہ

tahammul aur burdbari

tahammul aur burdbari

tahammul aur burdbari

source: http://www.minhajbooks.com/urdu/control/btext/cid/9/bid/132/btid/1469/read/img/باب%20دہم.html

باب : عملوں کا اعتبار خاتمہ پر موقوف ہے

صحیح بخاری -> کتاب القدر

حدیث نمبر : 6606
ہم سے حبان بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبردی، انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبردی، انہیں زہری نے، انہیں سعید بن مسیب نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی لڑائی میں موجود تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے بارے میں جو آپ کے ساتھ شریک جہاد تھا اور اسلام کا دعویدار تھا فرمایا کہ یہ جہنمی ہے۔ جب جنگ ہونے لگی تو اس شخص نے بہت جم کر لڑائی میں حصہ لیا اور بہت زیادہ زخمی ہوگیا پھر بھی وہ ثابت قدم رہا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی نے آکر عرض کیا یا رسول اللہ! اس شخص کے بارے میں آپ کو معلوم ہے جس کے بارے میں ابھی آپ نے فرمایا تھا کہ وہ جہنمی ہے وہ تو اللہ کے راستے میں بہت جم کر لڑا ہے اور بہت زیادہ زخمی ہوگیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اب بھی یہی فرمایا کہ وہ جہنمی ہے۔ ممکن تھا کہ بعض مسلمان شبہ میں پڑجاتے لیکن اس عرصہ میں اس شخص نے زخموں کی تاب نہ لاکر اپنا ترکش کھولا اور اس میں سے ایک تیر نکال کر اپنے آپ کو ذکر کرلیا۔ پھر بہت سے مسلمان آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دوڑتے ہوئے پہنچے اور عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے آپ کی بات سچ کردکھائی۔ اس شخص نے اپنے آپ کو ہلاک کرکے اپنی جان خود ہی ختم کرڈالی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر فرمایا کہ اے بلال! اٹھو اور لوگوں میں اعلان کردو کہ جنت میں صرف مومن ہی داخل ہوگا اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس دین کی خدمت و مدد بے دین آدمی سے بھی کراتا ہے۔

تشریح :    بظاہر وہ شخص جہاد کررہا تھا، مگر بعد میں اس نے خودکشی کرکے اپنے سارے اعمال کو ضائع کردیا۔ باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے۔ فی الواقع عملوں کا اعتبار خاتمہ پر ہے۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو توحید و سنت اور اپنی اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر خاتمہ نصیب کرے اور دم آخریں کلمہ طیبہ پر جان نکلے۔ آمین۔

ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوغسان نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابوحازم نے بیان کیا اور ان سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہ ایک شخص جو مسلمانوں کی طرف سے بڑی بہادری سے لڑرہا تھا اور اس غزوہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی موجود تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا اور فرمایا کہ جو کسی جہنمی شخص کو دیکھنا چاہتا ہے وہ اس شخص کو دیکھ لے چنانچہ وہ شخص جب اسی طرح لڑنے میں مصروف تھا اور مشرکین کو اپنی بہادری کی وجہ سے سخت تر تکالیف میں مبتلا کررہا تھا تو ایک مسلمان اس کے پیچھے پیچھے چلا، آخر وہ شخص زخمی ہوگیا اور جلدی سے مرجانا چاہا، اس لیے اس نے اپنی تلوار کی دھار اپنے سینے پر لگالی اور تلوار اس کے شانوں کو پار کرتی ہوئی نکل گئی۔ اس کے بعد پیچھا کرنے والا شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دوڑتا ہوا حاضر ہوا اور عرض کیا، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا باتکیاہے؟ ان صاحب نے کہا کہ آپ نے فلاں شخص کے بارے میں فرمایا تھا کہ جو کسی جہنمی کو دیکھنا چاہتا ہے وہ اس شخص کو دیکھ لے حالانکہ وہ شخص مسلمانوں کی طرف سے بڑی بہادری سے لڑرہا تھا۔ میں سمجھا کہ وہ اس حالت میں نہیں مرے گا۔ لیکن جب وہ زخمی ہوگیا تو جلدی سے مرجانے کی خواہش میں اس نے خودکشی کرلی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندہ دوزخیوں کے سے کام کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے ( اسی طرح دوسرا بندہ ) جنتیوں کے کام کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ دوزخی ہوتا ہے، بلاشبہ عملوں کا اعتبار خاتمہ پر ہے۔

اولیا اور انبیاٴ علیہ السلام کی نصیحتیں.

  • کم بولنا حکمت ہے ، کم کھانا صحت ، کم سونا عبادت ، اور عوام سے کم ملنا عافیت ہے ۔.حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہُ. ،
  • بےکاربولنے سے منہ بند رکھنا بھتر ہے۔شيخ سعدي شيرازي
  • جہاں تک ہو سکے لوگوں سے دور رہ، تاکہ تیرا دل سلامت اور نفس پاکیزا رہے.  حضرت لقمان علیہ السلام.
  • زیادہ سنو اور کم بولو۔ .  حضرت لقمان علیہ السلام.

  • کثیرا فہم اور کم سخن بنا رہ، اور حالت خاموشی میں بے  فکر مت رہ۔ .  حضرت لقمان علیہ السلام.
  • دوسروں کے عیب پوشیدہ رکھ  تاکہ خدا تیرے عیب بھی پوشیدہرکھے. حضرت خواجہ سراالدین۔
  • جو شخص خاموش رہتا ہے، وہ بہت دانا ہے، کیوں کہ کثرت کلام سے کچھ نہ کچھ گناہ سر ذد ہو جاتے ہیں۔ حضرت سلیمان
  • زبان سے بری بات نہ کرو، کان سے برے الفاظ نہ سنو،  آنکھوں سے بری چیزیں نہیں دیکھو,  ہاتھ سے بری چیزیں نہیں چھوٴو, پیر سے بری جگہ نہیں جاو, ور دل سے اللہ کو یاد کرو۔ حضرت ابو بکر
  • خاموشی نعمت ہے، درگزر جہاد ہے،غریب پروری زاراہ ہے۔ . حضرت خواجہ محمد اسد ہاشمی۔
  • جب راستہ چلو ،تو دائیں بائیں نہیں جھانکا کرو۔  نظر ہمیشہ نیچےاور  سامنے رکھو۔۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمت اللہ علیہ
  • بازاوں میں زیادہ نہ پھرو، نہ چلتےچلتے راستے میں کوئی چیز کھاو۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمت اللہ علیہ۔
  • زبان کی حفاضت کرو،کیوں کہ یہ ایک بہرین خصلت ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہُ
  • اچھے لوگوں کی صحبت اخیار کرو، اس سے تمھارے اعمال اچھے ہو جاہیں گے۔ ابن جوزی رحمت اللہ علیہ
  • برے لوگوں کی صحبت نیک لوگوں سے بدگمانی پیدا کرتی ہے، جب کہ  نیک لوگوں کی صحبت برے لوگوں کیلیئے بھی نیک گمان پیدا کرتی ہے. حضرت  بشر حائی.

تيری آرزوں کے دوش پر

تيری آرزوں کے دوش پر
تيری کيفِيت کے جام میں
میں جو کِتنی صديوں سے قید ہوں
تيرے نقش میں تيرے نام میں
میرے زاِئچے میرے راستے
میرے ليکھ کی یہ نِشانِياں
تيری چاہ میں ہیں رکی ہوئی
کبھی آنسوں کی قِطار میں
کبھی پتھروں کے حِصار میں
کبھی دشتِ ہجر کی رات میں
کبھی بدنصيبی کی گھاٹ میں
کئی رنگ دھوپ سے جل گئے
کئی چاند شاخ سے ڈھل گئے
کئی تُن سُلگ کے پگھل گئے
تيری الفتوں کے قیام میں
تيرے درد کے در و بام میں
کوئی کب سے ثبتِ صليب ہے
تيری کائنات کی رات میں
تيرے اژدھام کی شام میں
تُجھے کیا خبر تُجھے کیا پتا

میرے خواب ميری کہانیاں میرے بے خبر تُجھے کیا پتا