2010 ka akhri din

This is my annual post, the last post of 2010. and here i will sum up, what happened in my life in that year and look ahead to what’s going to happen in 2011. I do this so I can have a handy record that I can get to in seconds.
First month of 2010 was not good, after the month of march that year starts bringing me alot of happiness, in my personal life as well as in my career. Thanks to ALLAH for each and everything.

Many days was very good, few days was bad. this year i got sick 4 times.
This Year, I read almost 52 great Informative books on Islam, Life, and Science.I learn alot from those books. and i have change my life too much, beacuse i have implemented 80% in my life, that i read from books. Books are the best friends of a person. I spend my free time with books.
This year i didnt watch Television. as compared to past years. Only 2% of my time of 2010 i sit infront of tv to watch it.
I spend alot of my time on internet, for reading articles and news all around the world.

This year was nice. and I pray ALLAH, the coming year 2011 bring alot of happiness for my loved one,family, and friends.and take away all our sorrows and problems from our life. Make us powerfull,happy and healthy,wealthy. and A good MUSLIMS as ALLAH says in QURAN. Ameen

کِھلتے دِل،کُھلتے خیال

محبت اِک حسین شے ہے مگر ہم اُسے نہیں جانتےحسن کی تلاش فہم سے ہے مگر ہم اُسے نہیں مانتے

            ہم اِس دُنیا میں آتے ہیں۔ زندگی میں سیکھتے ہیں اور پھر حاصل علم دوسروں کو سِکھا کر حقیقی راہ پر دُنیا سے کنار ہ کشی فرماتے ہیں۔ایسے ہی ہم ہر برس کچھ نیا جاننے کی کوشش میں بہت کچھ اپناتے ہیں۔ آہستہ آہستہ ہم اپنا علم نئی نسل کو منتقل کرتے ہیں۔ زندگی میں ہم جو کچھ پاتے ہیں۔اُس کو بالآخر بانٹ کر جانا ہے، ورنہ ہمارے بعد ورثہ بٹ جاتا ہے۔ ہر وُہ شےءجس کی فطرت بانٹنا ہے، وُہ ہمیں زندگی کی حقیقت کی طرف لیجاتی ہے۔ علم بانٹو، محبت بانٹو، خوشی بانٹو، یہی حقیقی دولت ہے، بانٹو اور بڑھاﺅ۔

            انسان عمر بھر حسن کی تلاش میں رہتا ہے۔ حسن کیا ہے؟ ہر انسان کا اپنا اِک معیار ہے۔ اطمینانِ قلب اگر حسن ہے تو تسکینِ ذہن لطفِ افکار ہے۔ نگاہئِ حسن جس کو ملی، اُسکی دُنیا ہی بدلی۔ حسن ذات سے باہر ہے، کسی شےءکی مرکوزیت میں حسن تو ہو سکتا ہے، ممکن ہے وُہ آپ کا قلبی لگاﺅ ہو۔ قلبی واردات تو آپ کو ذات سے باہر لاتی ہے اور کسی اور ذات کی طرف لیجاتی ہے اور مخلوق خدا سے محبت کرنا سکھاتی ہے۔ خلقِ خداکی محبت آپ کو اللہ کی محبت کا رستہ دکھلاتی ہے۔ اللہ سے محبت کا رشتہ جب جڑ جائے تو خوف خوف نہیں رہتے بلکہ محبت بنتے ہیں۔

            حسن کا تصور ملنا خدا کی بہت بڑی دَین ہے۔ زندگی کی حقیقت میں خوبصورت رنگ انسان کے دِلکش رویے اور خیالات ہیں جو اَمن اور سکون قائم رکھتے ہیں۔

            انسان اپنی زندگی آئیڈئیل تھیوری یا ماڈل کے تحت گزارنا چاہتا ہے۔ ہمارے فلسفہ زندگی کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ ہم خامی کا خانہ اپنی تھیوری میں نہیں رکھتے۔ اپنے پیش کردہ ماڈل میں اگر حقیقی رنگ بھر دیں تو زندگی کو زندگی کے سبق سے سیکھا جاسکتا ہے۔

            ہم تنقیدی نگاہیں رکھتے ہیں، حالات کی بہتری حوصلہ اور رہنمائی سے ہوتی ہے۔ ہم زندگی کو بڑے ہی محدود کینوس سے دیکھتے ہیں۔ انسانی چہرہ پر موجود تاثرات کو نہیں سمجھتے۔ شک کی نگاہ سے دوسروں کو دیکھتے ہیں۔ مگر غیر جانبدار ہو کر شک دور نہیں کرتے ۔

            اکثر لوگ خود کو سیکولر کہتے ہیں۔ افسوس! میرا معاشرہ دو متضاد انتہاپرست گرہوں کی ضد کی شدت کے باعث بَٹ رہا ہے۔ کون جانے! سیکولر بننے کے لیے خود کو پہلے صوفی بنناہوتا ہے۔ لفظ صوف سے مراد کسی کے متعلق بغض ، حسد، کینہ اور نفرت دِل میں نہ رکھنا۔ اپنی مرضی مار دینا، اپنوں کی مرضی چھوڑ دینا اور حق بات کا بلا تعصب فیصلہ کرنا۔ اصل میں صوف ہے۔

            ہمارے رویے اس لیے بھی بگڑتے ہیں ہم چھوٹے دِل رکھتے ہیں اور بند نگاہوں کی طرح تنگ ذہنوں میں اُلجھے رہتے ہیں۔

            انسانی فطرت ہے کہ وُہ خواہشات رکھتا ہے، ایسے ہی خواہشات کی تکمیل غلطیوں کا مرتکب بناتی ہے۔ فطری خواہشات انسان کی معصوم خواہشات ہوتی ہے۔ ایسے ہی فطرتی غلطیاں معصوم انسانی غلطیاں ہوتی ہے۔ معصوم غلطیوں کو درگزر کریں بوقت ضرورت مصنوعی سرزنش سے غلطی کا احساس ضرور دلائیںمگر دِل کی میل صاف رکھیں۔ دِل بڑھنے لگے گا۔ برداشت آجائے گی۔

            زندگی کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھے مگر حالات کو دوسروں کی نگاہ سے دیکھے۔ ہم اختلافی مسائل کے بارے میں ایک رائے رکھتے ہیں۔ جن کے بارے میں آپ مخصوص سوچ (نفرت)رکھتے ہیں۔ اُن سے اُنکے خیالات بھی تو جانئے۔ تعصب سے پاک غیر جانبدارانہ سوچ ذہن کھولتی ہے۔ بڑھتے دِل، کُھلتے ذہن؛ بصیرت پاتے ہیں۔

گزشتہ برس میرے لفظوں نے اشعار کا روپ دھارانہیں جانتا ، کس کی دُعا سے میرا خیال خوب بڑھا

            قیادت کو بصیرت کو چاہیے۔ خیالات ذاتیات میں محو ہو جائیں تو خیالات کا محور بصیرت سے محروم ہوتا ہے۔ قیادت حالات کے بھنور میں دھنستی رہتی ہے۔

            حسن زندگی کو توازن دیتا ہے۔ زندگی گزارنا کوئی آئیڈئیل تھیوری نہیں۔ دوسروں کو سمجھ کر ردعمل یوں دینا کہ معاملات سلجھ جائیں۔ خوبی کو خامی کے ساتھ قبول کرنا، حسنِ سلوک ہے۔ دوست ہماری مرضی کے مطابق نہیں ہوتے۔ ہم اُن کو خامیوں سمیت قبول کرتے ہیں۔ اُنکی خامی ہمارے لیے خامی نہیں رہتی۔

            حسن الجبرا کی ایک ایسی مساوات ہے، جس کو ہم مساوی رکھتے ہیں۔ مصور تصویر میں متوازن رنگ بھرتا ہے، شاعر شعر کا وزن مدنظر رکھتاہے، مصنف جملوں میں تواز ن لاتا ہے، گلوگار آواز کے اُتار چڑھاﺅ میں توازن رکھتا ہے، متواز ن غذا صحت لاتی ہے، متوازن گفتگو سوچ کو نکھارتی ہے، متوازن عمل شخصیت بناتے ہیں۔ انسان کا حسن عمل اور سوچ کا توازن ہے تو انسانی شخصیت خوبیوں اور خامیوں کا مرقع ہے۔ ایسے ہی معاشرتی مساوات معاشرے کا حسن ہے۔

            اپنی زندگی کی نئی بہار کے موقع پر گزشتہ برس کی وُہ نئی نگاہ پیش کی۔ جو مجھ کو سلطان شہاب الدین غوریؒ سے عقیدت مندانہ ملاقات کے دوران ملی۔

لوگ اُنکے مرقد کو صرف ایک مقبرہ سمجھتے ہیں۔راہ ِ عقیدت میں جو نگاہ ملی، ہم اُس کومزار مانتے ہیں۔

            یا اللہ آج میری زندگی کا نیا برس شروع ہوچکا ہے، ہم سب پر اپنا کرم فرمانا۔ نئی راہوں کے نئے دروازے کھولنا۔ ہمارے خیالات میں حسن کی نگاہ اور محبت کا جذبہ برقرار رکھنا۔ ہماری راہ منزل میںاپنی رہنمائی جاری رکھنا۔ ہم سب کو اعلیٰ اخلاق کا نمونہ بنانا۔ آپ سب کو کل سے شروع ہونے والا نیاعیسوی سال نیک تمناﺅں اور دُعا کے ساتھ مبارک ہو۔

 

 

بنگال کی نوابی سے پاکستان کی گورنر جنرلی

برصغیر کی گزشتہ ہزار سالہ تاریخ میں ہمیشہ ایک دہائی اہم رہی، وُہ ہرصدی کی ساٹھویں دہائی تھی۔

 

الپتگین کو سامانی حکمرانوں نے 950ءمیں اقتدار عطاءکیا۔ جس نے ہندوستان کے نئے دور کی بنیاد رکھی۔ سبکتگین اور محمود غزنوی اسی سلسلہ کی کڑی بنے۔غزنوی خاندان نے نوشتگن کو1052ءمیںہندوستان کا باضابطہ سرکاری حاکم مقرر کیا۔1151ءمیں غزنی کی بربادی غوری اقتدار کا اعلان تھا۔ خاندانِ غلاماں کے دور میں بلبن نے 1257ءمیںہلاکو خان کو بدترین شکست دی۔جس نے دِلی میں مسلمان اقتدار کو ایک نیا دوام بخشا۔1351 ءمیں محمد بن تغلق کی وفات کے بعد ہندوستان کی تاریخ میں فیروز شاہ تغلق کا ایک طویل رفاہی دور شروع ہوا۔1451ءمیں لودھی خاندان برسر اقتدار آیا تو پہلی مرتبہ ہندوستان میں پٹھان اقتدار کو دوام نصیب ہوا۔ 1557ءمیں مغلوں کوہندوستان میں مستقل اقتدار حاصل ہوا۔1657ءمیں ہندوستان کی مشہور زمانہ تخت نشینی کی ایسی جنگ چھڑی ۔ جس میں شہزادے بھائی قتل ہوئے،بادشاہ باپ قید ہوا۔دو بہنوں(جہاں آراءاور روشن آراء) کی جنگ نے مغل استحکام کی بنیادیں کمزور کر ڈالی۔1757 ءہماری تاریخ میں وُہ فیصلہ کن موڑ تھا۔ جس نے انگریزوں کو معاشی اور انتظامی استحکام بخشا اور دو صدیوں کے اقتدا ر کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ 1857ءہماری نااہلی اور کوتاہیوں کی کوتاہ اندیشی کاانجام تھا۔ 1947ءاس ترتیب سے شائید کچھ ہٹ کر اہم واقعہ ہو گیا۔ مگر-ء1955-58 کا عرصہ ہماری تاریخ کو 1757ءکی کڑی سے ایک بار پھر ملاتا ہے۔

جنگ پلاسی1757ء کوئی بڑا معرکہ نہ تھا۔ مگر اس کی اہمیت ایسی ہے۔ جیسے ہماری تاریخ، تہذیب اور ثقافت پر کوئی بڑا ہی زہر آلود گھاﺅ لگا ہو۔ جس نے رفتہ رفتہ سرطان(کینسر) کے مرض کی صورت اختیار کر لی اور ہمارے تاریخی تسلسل کو موت کی گہری نیند سلایا۔

 

اس جنگ سے قبل فرانسیسی اور برطانوی تجارتی کمپنیوں کے مابین ہندوستان کی سیاست میں کشمکش جاری تھی۔ جن میںفرانسیسی ”ڈوپلے“ کے باعث طاقتور حریف تھے۔ مگر جنگ پلاسی نے فرانسیسی اقتدار کے خواب کا ہمیشہ کے لیے نہ صرف خاتمہ کیا۔ بلکہ بنگال کی معیشت برطانوی اقتدار کا سرچشمہ بنی۔ یہ دولت ہندوستان میں کمپنی ملازمین کوچند برسوں میںمالدار کرتی، غدار خریدتی، زیادہ تنخواہ پر ہندوستانی فوج میں بھرتی کرتی، دولت فرنگستان بھی بھیجی جاتی تھی۔

 

آج ہم پیسے کے پُتر ہونے کو لعن طعن کرتے ہیں۔ زیادہ تنخواہ کے لالچ میں صدیوں پہلے لاکھوں ہندوستانی برطانوی فوج کا حصّہ بنے اور ہندوستان کا قبضہ انگریز کے لیے ممکن ہوا۔ سینکڑوں ہندوستانی ریاستیںچڑھتے سور ج کی پجاری رہی۔ اِن میں سے کچھ وہی کمپنی مہاراج کے مِتر تھے، جنھوں نے 1857ءکی جنگ آزادی میں حصّہ اپنی اپنی محرومیوں اور خودداریوں کے لیے لیا۔ اِس تحریک کو دفن کرنے والوں میں ہندوستانی بھی شامل تھے۔

 

2000ءمیں ایک کتاب”From Plassy to Pakistan”امریکی ریاست میری لینڈ سے چھپی۔ جس کا مصنف میرہمایوں مرزا تھا۔ جو تیس برس تک ورلڈ بینک میں وائس پریذیڈینٹ کے سنیئر ایڈوائیزر رہے اور1988ءمیں ریٹائرڈ ہوئے۔ ان کا بڑا اہم تعارف یہ تھا کہ یہ پاکستان کے پہلے صدر میجر جنرل میرسید سکندر علی مرزا کے برخوردار ہے۔جو پاکستان کے58-1955ءمیںحکمران تھے۔اس کتاب کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصہ میں خاندانی پس منظر ہے۔ جو کہ 1757ءسے لیکربیسویں صدی کے آغاز تک ہے۔ جس میں یہ انکشاف کیا گیا کہ سکندر مرزاکا سلسلہ ء نسب1757ءکی جنگ پلاسی کے اہم کردار اوربنگال کے نواب میر جعفر سے ملتا ہے۔دوسرے حصہ میں سکندر مرزا اور ہمایوں مرزا کی یاداشتوں کا تذکرہ ہے۔

 

آج سے دس برس قبل جب میں نے یہ سنا تھا تو میرے لیے یہ بات من و عن قبول کرنے کے لیے کافی نہ تھی۔ میں نے خود اس صحت کو جانچنے کے لیے تلاش جاری رکھی۔ کئی مقامات پر تاریخ میں گھناﺅنے کھیل دیکھے۔ یہ بات درست ثابت ہوئی کہ ہم سات نسلوں سے غلام چلے آرہے ہیں۔ سکندر مرزا کی آٹھویں پشت میر جعفر سے ملتی ہے۔ اس کے لیے نجفی خاندان (میر جعفر کا خاندان) کا مستند شجرہ درکار تھا۔

 

کچھ سوال بھی ذہن میں اُبھرے۔ میر جعفر کا خاندان کہاں سے آیا؟ پس منظر کیا تھا؟ مرزا ، میر اور سید خطابات یکساں کیوں استعمال ہوئے؟ 1757 ءکے بعد یہ خاندان کہاں رہا؟ یہ خاندان نجفی کیوں کہلاتا ہے؟

 

جب کچھ خاندان اقتدار میں آتے ہیں تو اُنکا کچھ پس منظر بھی تاریخ میں شامل ہو جاتا ہے۔ میر جعفر کے دادا کا نام سید حسین نجفی تھا۔ جو نجف سے آبائی تعلق رکھتے تھے اور روضہ حضرت علی ؓ کے خادم ِ نگران تھے۔ کہتے ہیں کہ اورنگ زیب عالمگیر شہنشاہ ہندوستان 1677ءمیں جب حج پر مکہ گیا تو سید حسین نجفی کو ہندوستان لایا۔ اور اِس کے علم سے متاثر ہوا۔ مجھے ابھی تک ایسا کوئی تاریخی حوالہ نہیں مل سکا۔مگرایسا ضرو ر ہے کہ یہ خاندان عہد عالمگیری میں دلی آیا اور شاہی ملازمت اختیار کی۔ پھر مزید یہ لکھا گیا کہ شاہی خاندان کے امور کا منتظم بنایا تھا۔مگر اس خاندان کے حوالے سے کچھ لوگ دعوی کرتے ہیں کہ بعد میں یہ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ عالمگیری دور میں ہوئے۔ اس دعوٰی میںکمزوری محسوس ہوتی ہے۔ سید حسین نجفی مسلکی اعتبار سے شیعہ تھے۔اور رنگ زیب شیعہ مسلک کے لیے سخت ردّعمل رکھتا تھا۔ جب بنگال میں اُسکے بھائی شجاع نے شیعہ مسلک اختیار کیا تو اور نگ زیب کا رویہ شجاع کے اقتدار کے لیے نرم نہ تھا۔

 

مغل دور میں اکبر بادشاہ کے اتالیق بیرم خان نے ایک شیعہ شیخ گدائی کمبوہ کوصدر الصدور (چیف جسٹس آف سپریم کورٹ، یہ عہدہ قاضی القضاة سے اُوپر ہوتا تھا، یہ عہدہ 1247ءمیں التمش کے بیٹے سلطان ناصر الدین نے متعارف کروایا تھا۔)مقرر کیا تو اُسکو شدید مزاحمت کا سامنا ہوامزید اقتدار بھی اُسکے ہاتھ سے رخصت ہوا تھا۔مغلیہ خاندانی پس منظراورمزاج ِ عالمگیری کے مطابق یہ دعوٰ ی باطل دکھائی دیتا ہے۔ (نوٹ: عالمگیر کی وفات کے بعد اُسکے بیٹے معظم نے شیعہ علماءکی حمایت کی تھی۔)

 

میر جعفر کا خاندان اپنا مزید قریبی تعلق مغلوں سے منسلک کرنے کے لیے ایک دعوی مزید رکھتے ہیں۔ سید حسین نجفی کے بیٹے سید احمد نجفی سے شہزادہ دارا الشّکوہ کی ایک بیٹی بیاہی گئی۔ جس سے سید محمد نجفی سرکاری نام میر جعفر علی خان کی پیدائش1691ءمیں ہوئی۔ ایک بے بنیاد دعوی ہے۔اس دعوی کا مقصد خود کو شاہجہاں کا وارث ثابت کرنے کے سواءکچھ نہیں ہوسکتا۔

 

بیشک مغلوں میں کچھ شادیاں شیعہ مسلک میں سیاسی مصلحت کے تحت ہوتی رہی مگر وُہ ایران کے شاہی خاندان سے منسلک تھی۔ اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں شہزادیوں کا بیاہ جانا بھی ایک اور انداز اختیار کر گیا تھا۔ اسکے لیے پہلے میںاورنگزیب کے تمام بھائیوں کی اُولادوں کا ذکر کروں گا۔ پھر اس نکتہ پر بات باآسانی واضح ہوجائے گی۔

 

شاہجہاں کے ولی عہد بیٹے دارالشکوہ کے چار بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں۔ سلیمان شکوہ،سپہرشکوہ،مہر شکوہ اور ممتاز شکوہ ۔تاریخ میں دارا کی ایک ہی بیٹی کا ذکر ملتا ہے۔ جو حیات بھی رہی۔جہانزیب بیگم عرف جانی بیگم، یہ شہزادی شاہجہاں کی چہیتی پوتی بھی تھی۔دارا کی بڑی بیٹی1634ءمیں نادرہ بیگم(شاہجہاں کے سب سے بڑے بھائی کی بیٹی) کےاورشہزادہ ممتاز شکوہ نے بھی کم عمری میں دُنیا سے کو چھوڑا۔ دارا لشکوہ کے تین بچے زندہ رہے۔سلیمان شکوہ،سپہرشکوہ، جہانزیب بیگم

 

شاہ شجاع حاکم بنگا ل تھا اور دارا لشکوہ سے چھوٹا تھا۔اس کے تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں تھیں۔اس کے تینوںبیٹے زین الدین محمد،زین العابدین،بلند اختر اور ”پیاری بیگم(بیوی شاہ شجاع)“ سے دو بیٹیوں کو راجا اراکان کے حکم سے جولائی1663ءمیں بمقام مروہاﺅنگ میں قتل کر دیا گیا۔دلپذیربانو بیگم کا بچپن میں انتقال ہوا۔گل رُخ بانو بیگم1659ءمیںشہزادی آمنہ بیگم بھی شجاع کی چہیتی بیوی ”پیاری بیگم“ سے تھی اور1660ءمیں اراکان کے بادشاہ نے شجاع کے خاندان میں سب سے پہلے اس کو اپنے حرم میں داخل کیا اور 1666ءمیں بادشاہ اراکان سنداتھواما نے قتل کروا ڈالی۔ لہذا شجاع کی تمام اولاد، بیگمات مروہاﺅنگ میں قتل ہوگئیں۔

 

اورنگ زیب کی تین بڑی بیٹیاں زیب االنساء، زینت النساءاوربدر النساءغیر شادی شدہ فوت ہوئیں۔( زیب النساءنے 1702میں وفات پائی، دلی میں اس کا مقبرہ تھا،شہر لاہوربمقام سمن آباد میں جو مقبرہ اس کے نام سے منسوب ہے ، وُہ مناسب ثبوت نہیں رکھتا۔) باقی بیٹیوں میں مہر النساء، زبدةالنساءاورحجةالنساءتھیں اور محمد مرزا، محمد سلطان مرزا،محمد معظم،محمداعظم شاہ، محمد اکبر اور کام بخش بیٹے تھے۔محمد مرزا نے1665ءمیں وفات پائی تھی۔اورنگزیب کے سات بچوں کی نسل باقی رہی۔ مہر النساء، زبدةالنساء،سلطان مرزا،محمد معظم،محمداعظم شاہ، محمد اکبر اور کام بخش

 

مراد گجرات کا حاکم تھا اور سب سے چھوٹا بھائی تھا۔ سلطان یارمحمد اور ایزد بخش دو بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں۔بڑی بیٹی بلخ کے پیرزادہ سے بیاہی گئی۔ اس کے علاوہ دوستدار بانو بیگم، شہزادی عائشہ بانو بیگم اور شہزادی ہمراز بانو بیگم تھیں۔

 

دارالشکوہ کومرتد قرار دیکر60-1659 ءمیں قتل کر دیا گیا، مراد کے ذمہ دیوانِ گجرات  کا قتل ٹھہرا جس میںاُس کو 1660ءمیں سزائے موت ہوئی۔شجاع کو1661ءمیں اراکان کے بادشاہ نے قتل کروایا۔

 

مغل تاریخ میں واحد مثال ہے کہ اورنگزیب نے اپنے مقتول بھائیوں کے زخموں کو بھرا۔ اپنی نگرانی میں اپنے بچوں کی طرح شاہی محل میں پرورش اور تربیت کی۔مزید اپنے بھائیوں کے بچوں میں ہی شادیاں کیں۔

 

سلیمان شکوہ جانشینی کی جنگ میں اپنے باپ دارا کا دستِ راز تھا۔ لہذا گوالیار کے قلعہ میں بحالت قید مرا۔ سلیمان شکوہ کی دو بیٹیاں تھیں۔چھوٹی بیٹی نواب فاطمہ بانو بیگم کا بیاہ خواجہ بہاﺅ ولد خواجہ پارسا سے 1678ءمیںہوا،1706ءمیں وفات پائی۔ بڑی بیٹی سلیمہ بیگم اور نگ زیب کے بیٹے محمد اکبر سے 1672ءمیںبیاہی گئی۔ جس نے اپنے باپ کے خلاف بغاوت کی اور ناکام ہوکر ایران بھاگا جہاں 1702ءمیں اُس نے وفات پائی۔ جس کے متعلق اورنگ زیب نے کہا تھا۔”میں انتظار کروں گا کہ ہم دونوں میںسے پہلے کون مرے گا۔“ ان دونوں سے پیدا ہونے والا لڑکا نیکو سئیر تھا۔ جو 1681-1721 تک قید میں رہا اور بحالت قید مرا۔1719ءمیں اس شہزادہ کو چند ماہ کی بادشاہت نصیب ہوئی مگر پھر قید میں ڈال دیا گیا۔

 

سلطان سپہر شکوہ کی شادی اورنگزیب کی بیٹی زبدةالنساءسے1673ءمیں ہوئی۔ جس سے شہزادہ عالی تبار 1676ءمیں پیدا ہوا۔سپہر شکوہ نے 1707ءمیں ترپن برس کی عمر میں وفات پائی۔ مزید زبدة النساءنے بھی اسی برس عالمگیر کی وفات سے قبل داعی اجل کو لبیک کہا۔

 

دارالشکوہ کی اکلوتی بیٹی جہانزیب(جانی) بیگم کی شادی اورنگ زیب کے بڑ ے بیٹے محمد اعظم شاہ سے1669ءمیں ہوئی۔ یہ شہزادی عالمگیر کی وفات کے تین ماہ بعد تک ملکہ ہندوستان بھی رہی۔

 

مراد کا بیٹاسلطان یار محمد 1646ءمیں وفات پا گیا تھا۔ ایزاد بخش عالمگیر بادشاہ کی بیٹی مہرالنساءسے 1672ءمیںبیاہا گیا اور 1709ءکو دُنیا سے رخصت ہوا۔ ان سے شہزادہ دیدار بخش اور داور بخش پیدا ہوئے۔دیدار بخش کی پوتی شہزادی عفت النساءتھی۔جو پہلے نصر اللہ مرزا سے بیاہی گئی اور اُنکی وفات کے بعد بادشاہ کابل احمد شاہ ابدالی کے عقد میں آئی۔

 

شہزادی عائشہ بانو بیگم کی 1672ءمیں خواجہ صالح اورشہزادی ہمراز بانو بیگم کی 1678ءمیں خواجہ صالح کے چھوٹے بھائی خواجہ یعقوب سے میںشادی ہوئی۔شہزادی دوستدار بانو بیگم 1672ء میںعالمگیر بادشاہ کے بیٹے سلطان محمد کی تیسری بیوی بنی۔ جبکہ اسی شہزادہ کی دوسری بیوی شجاع کی بیٹی گل رُخ تھی ۔

 

موضوع سے ہٹ کر اتنی طویل خشک بحث کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ مغلوں کا میر جعفر کے خاندان سے کوئی تعلق نہیں۔اس خاندان کا تعلق ایرانی شاہی خاندان سے تو دور ایران سے بھی کسی طرح نہیں تھا۔ نہ میر جعفر کا خاندان ایرانی نژاد تھا۔ یہ اپنے نام کے ساتھ نجفی لکھتے تھے جو نجف سے عراق اور وہاں سے ہندوستان آئے تھے۔

 

مزید یہ دعوی اس اعتبار سے بھی اپنی اہمیت کھوتا ہے کہ بمطابق خاندانِ نجفی کے اُنکی ہندوستان آمد 1677ءکے بعد ہوئی اور جس شادی کا دعوٰی یہ خاندان 1690ءکے عشرہ میں کرتا ہے۔اُس کو تاریخی تسلسل میں منطق کے ساتھ دیکھ لیا جائے۔اورنگ زیب کے بھائی1660ءتک اس دُنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ جس سے اُسکے تمام بھائیوں کے بچوں کی پیدائش1660-61ءکے بعد نہیں رہی۔ مزید ماسوائے تین شہزادیوں کے تمام شہزادیاں 1678ءتک بیاہی جا چکی تھی۔ مزید میر جعفر کی پیدائش بھی 1691ءہے۔ جو بیشتر شہزادیوں کی زندگی کی آخری دہائی تھی۔

 

ان نکات پر یہ واضح ہوتا ہے کہ میر جعفر عالمگیر کی کسی بھتیجی کی اُولاد نہیں تھا۔ یہ صرف ایک من گھڑت قصّہ ہے(جیسے شہزادہ سلیم اور انارکلی کا فرضی قصہ سر ٹامس کا پیداکردہ ہے۔) ورنہ شہزادی کا نام واضح ہونا چاہیے۔ یہ تحریر میں نہ آئے ، ایک شہزادی یا دارالشکوہ کی ایک بیٹی۔ اس بات کا صرف ایک ہی مقصد ہے خود کو دارالشکوہ کے وارث ٹھہرانا۔اور بنگال کی نوابی کو اپنا حق ثابت کرنا۔

 

میر جعفر نے علی وردی خان (نواب بنگال، نانا نواب سراج الدولہ) کی سوتیلی بہن سے شادی کی اور سپہ سالار افواج مقرر ہوا۔1757ءمیں غداری کے عوض میر جعفر کو بنگال، بہار، اوڑیسہ کی نوابی حاصل ہوئی۔اس طرح یہ خاندانِ نجفی کے نام سے بنگال میں دوصدیوں سے زائدنواب رہے۔

 

میر کا عہدہ عموماً مغل امیروں ہی کے لیے تھا۔مغل دور میں مرزا خطاب بھی رہا۔ اس بناءپر ان کے ناموں میں مرزا، میر، سلطان جیسے القابات کی شمولیت ہوئی۔خاندانی اعتبار سے سادات سے اپنا تعلق بتاتے ہیں۔انگریزوں کی جانب سے خان بہادر کا خطاب بھی اِنکے ناموں کی زینت بنا۔

 

میر جعفر علی خان1757-60ءتک بنگال کا نواب رہا مگر انگریزوں کے معیار پر مکمل نہ اُتر سکنے کے باعث معزول ہوا۔ اب تین برس کے لیے میر قاسم 1760-63ءتک نواب مقرر ہوا۔ میر قاسم مغل صوبیدار گجرات”سید امتیاز“کا پوتا تھا۔آخر یہ اقتدار سے محروم ہوا ۔میرجعفر دوبارہ انگریزوں کے نظر کرم میں آیا اور وفات تک نواب بنگال، بہار، اوڑیسہ رہا۔میر قاسم نے مغلوں سے مل کر بکسر کے مقام پر آخری مزاحمت کی مگر شکست کھائی اور کسمپرسی کی حالت میں باقی ماندہ زندگی بسرکرتے ہوئے دلی میں انتقال کیا۔1765ءمیں بنگال کے آخری خود مختار نواب میر جعفر کا انتقال ہوا۔

 

بڑے بیٹے کی وفات کے باعث میر جعفر کے دوسرا درجہ کا بیٹا نجیم الدین علی خان اٹھارہ برس کی عمر میں نواب بنا مگرایک سال بعد 1766ءمیں وفات پائی۔ پھر تیسرا درجہ کا بیٹا نجابت علی خان1766-70ءچار سال نواب رہ کر فوت ہوگیا۔سید اشرف علی خان چوتھا بیٹا تھا، جو نواب بننے کے تین روز بعد خسرہ سے مر گیا۔اب میر جعفر کا پانچواں بیٹاسید مبارک علی خان1770-93ءتک صاحب اقتدار رہا۔ اس کے بارہ بیٹے اور تیرہ بیٹیاں تھیں۔

 

سید مبارک علی خان کی وفات کے بعد اقتدار اگلی نسل میں متنقل ہوا۔ اُسکا بڑا بیٹا نواب بابر علی خان (بابر جنگ) نواب بنگال، بہار، اوڑیسہ ہوا۔جس نے 28اپریل 1810ءکو وفات پائی۔

 

اب نواب سید محمد زین العابدین خان عالی جاہ21-1810نواب مقرر ہوا۔16اگست1821ءکو وفات پائی مگر نرینہ اُولا د نہ پائی۔ تین بیٹیا ں تھی۔ جس میں رئیس النساءبیگم کی شادی چچازاد بھائی مبارک علی خان دوم، ہمایوں جاہ ولی عہد بنگال سے ہوئی۔نواب زین العابدین خان عالی جاہ کی وفات کے بعد اُنکے چھوٹے بھائی نواب سید احمد علی خان والا جاہ نئے نواب مقرر ہوئے۔1824ءمیں اِنکی وفات کے بعد رئیس النساءبیگم کے شوہر اور والا جاہ کے اکلوتے صاحبزادے نواب سید مبارک علی خان ، ہمایوں جاہ1838ءتک نواب رہے۔3اکتوبر1838ءکو وفات پائی۔

 

ہمایوں جاہ کے بعد بنگال ، بہار، اوڑیسہ کے آخری نواب سید منصور علی خان، فیردون جاہ تھے۔ جو 1880ءتک نواب کی حیثیت سے رہے اور 1884ءمیں وفات پائی۔ اِنکے ایک سو ایک بچے بیس بیگمات سے تھے۔ جن میں اُنیس بیٹوں اور بیس بیٹیوں کی اولاد ابھی بھی موجود ہے۔

جولیا لیوس اور سارہ وینیل میں کو بھی انگریز حکومت نے اِنکی عیش پرستانہ زندگی بیگمات کا درجہ دیا۔

 

1880انگریز حکومت نے نواب بنگال، بہار، اوڑیسہ کا عہدہ ختم کر کے اس خاندان کو ءمیں نسبتاً کم درجہ کی نوابی سے نوازا۔ تب یہ خاندان نواب آف مرشدآبادکہلایا جانے لگا۔ مرشد آباد کے پہلے نواب سید حسن علی مرزا خان بہادر تھے۔جومیجر جنرل سکندر مرزا کے دادا نواب سید سکندر علی مرزا کے سب سے بڑے بھائی تھے۔ انکی وفات 1906ءمیں ہوئی۔ پھریہ نوابی اُنکے بیٹے نواب سید واصف علی مرزاخان بہادر1906-59ءکے حصہ میں آئی۔ اور مزید دس سال1969ءتک کے لیے اس خاندان کا آخری نواب وارث علی مرزا خان بہادر مقرر ہوتا ہے۔ بالآخر حکومت ہندوستان مرشد آباد کے نوابی سلسلہ کو ختم کرتی ہے۔قیام پاکستان کے عرصہ میں مرشد آباد پاکستان میں شامل تھا۔ مگر چند دِن بعد (غالباً دو یوم بعد) کھلنا پاکستان میں شامل ہوا اور مرشد آباد ہندوستان میں ہی رکھا گیا۔

 

اب سوال ذہن میں یہ اُمڈتا ہے کہ یہ شجرہ کتنا مستند ہے۔ 1757ءتا1880ءتک جو صاحب اقتدار نواب رہے۔ وُہ نام تو تاریخ میں مستند حوالوں سے درج ہے۔ نواب آف مرشد آباد کیا واقعی سکندر مرزا کے دادا جان کے بھائی تھے؟

 

سید حسن علی مرزا کا خطاب مرشد زادہ علی قادرتھا اورعموماً بڑا صاحب بھی پکارا جاتا تھا۔ اُنکی ماں کا نام مہر لیکھا بیگم تھا۔یہ فیردون جاہ کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ جبکہ سید سکندر علی مرزا کا خطاب خورشید قادر تھا اور سلطان صاحب کے نام سے بھی مشہور تھے۔14جنوری1857ءکو ہزاردواری محل مرشد آباد میں پیدا ہوئے۔ جو شمس جہاں بیگم المعروف گدی نشین بیگم کے بطن سے تیرھواں بچہ تھا۔ اور بھائیوں میں چودھواں درجہ تھا۔ان کی وفات 1902ءسے قبل ہوئی۔ سید سکندر علی مرزا کے بیٹے محمد فتح علی مرزا(1948ء -1875ء) کی شادی دلشاد بیگم(1879 ء- 1925ء )سے ہوئی۔ جن کے بطن سے سکندر مرزا15نومبر1899ءکو مرشد آباد میں پیدا ہوا۔ تعلیم وتربیت بمبئی میں حاصل کی۔ابتدائی تعلیم ایلفنسٹن کالج اور پھرسندھرسٹ اکیڈمی  انگلستان سے فوجی تربیت حاصل کی اور ہندوستانی فوج میں بھرتی ہوا۔ 1926ءمیں پولیٹیکل سروس میں شمولیت ہوئی۔ بطور اسسٹنٹ کمشنر اوربعد میں ڈپٹی کمشنر کے عہدہ پر 1931ءمیں رسائی ہوئی۔وزارت دفاع میں جوائنٹ سیکریٹری کی حیثیت سے کام کیا۔آزاد ی کے بعدپاکستان کے پہلے سیکریٹری دفاع بنے اور سات سال اس عہدہ پر کام جاری رکھا۔ مئی 1954ءکو گورنر بنایا گیا۔اکتوبر1954ءتااگست1955ءمیں وزیر داخلہ، وزیر خارجہ اور پھر وزیر اعظم محمد علی بوگرا کی کابینہ کے ممبر رہے۔ اور بعد ازاں ملک کے اقتدار پر قابض ہوئے۔ملک کا پہلا آئین بنایا اور خود ہی تسلیم نہ کیا۔ملک میں سیاسی بساط کو ذاتی مفادات کے تحت لپیٹا۔ ایوب خان نے جلا وطن کیا اور جلاوطنی میں 12نومبر1969ءکو لندن میں انتقال کیا۔ یحییٰ خان نے میت کو پاکستان میں دفن ہونے کی اجازت نہ دی اور سکندر مرزا کی معیت کو تہران میںدفنایا گیا۔ان کی پہلی بیوی رفعت شیرازی سے ہمایوں مرزا9دسمبر1928ءکو پونا ہندوستان میں پیدا ہوا۔ جس کی پہلی شادی پاکستان میں امریکی سفیر1953ء57ء

کی بیٹی Hoarace A. Hilderathe

سے ہوئی۔ Josephine Hildreth (Dodie Begum)

 

میرجعفر<—سید مبارک علی خان<—نواب بابر علی خان<—نواب احمد علی خان،والا جاہ<— نواب مبارک علی خان دوم،ہمایوں جاہ<—نواب منصور علی خان، فیردون جاہ<—نواب سید اسکندر علی مرزا<— سیدمحمد فتح علی مرزا<—سید سکندر علی مرزا

 

یہ آٹھ نسلوں کا دو سو سالہ دور اقتدار تھا۔ وُہ دور جس میں مسلمانان ہند غلام بنے اور ظلم کا شکار رہے۔ بڑی ہی المناک داستان۔ آخر کیا وجہ تھی کہ ہمایوں مرزا نے امریکہ و یورپ میں کتاب چھپوا کر اپنا تعلق میر جعفر سے علی الاعلان سنایا۔ کہیں پرانے آقاﺅں کو یہ یقین دلانا تو نہیں کہ وُہ پرانے خادم اور وفادار رہے۔ اُ ن پر بھروسہ کیا جائے۔ وُہ نسل آج بھی پرانے آقاﺅں کے لیے سو دمند ہے۔ ایک ایسی شخصیت جو ہماری تقریروں اور تحریروں میں عموماً غدارِ ملت کی حیثیت سے استعمال ہوتی ہے۔اقبال نے کہا تھا:

 

میر جعفر بنگال و میر صادق دَکن

ننگ آدم، ننگ دین، ننگ وطن

 

اُس کی نسل آزادی کے بعد میں بھی پر مسلط رہی اور ہم لاعلم رہے۔ اس ملک کی کشتی آغاز سے ہی جن طوفانوں کی لپیٹ سے متاثر ہوئی۔ اُن میں ایک نام سکندر مرزا بھی تھا۔

 

ہم مستقبل میں اپنے بچوں کو کیا جواب دے گے کہ غدارکی اُولاد ہی اس ملک پر حکمرانی کر گئی اور اس ملک کو نئے طوفانوں کی زد میں ڈال گئی۔ میں جانتا ہوں کہ ایسے سوال ہمارے ذہنوں میں آئے گے۔ مگر آج شائید ہم اپنی تاریخ سے جتنی نفرت کرتے ہیں، اُس پر کیچڑ اُچھالتے ہیں، اس کا حلیہ بگاڑتے ہیں، تاریخ کے مضمون کو فضول سمجھتے ہیں۔ ایسی اقوام کو تاریخ بھی بھُلا دیتی ہے۔ تاریخ کا مضمون ہمیں ایک تسلسل سے جوڑے رکھتا ہے۔ چونکہ آج ہم تاریخ سے بہت دور ہے۔ اس لیے ہمارے پاس کوئی جواب نہیں۔ مستقبل کا مورخ دو سوسال بعد اس کا جواب تحریر کرے گا۔ تلخ حقائق میں سے تلخ ترین سچ کی دریافت!

 

اس تاریخی تسلسل کے تحت ہمیں کم از کم یہ سوچنا ہوگا کہ ہمارے صاحب اقتدار افراد کے خاندان کہیں غداری کا پس منظر تو نہیں رکھتے۔ مگر اِنکی نسلوں سے نفرت نہیں کرنی چاہیے۔ وفادار کا بیٹا غدار ہوسکتا ہے۔ تو غدار کی نسل وفادار اور محب وطن بھی ہوسکتی ہے۔

 

میں اپنی تحریر کا اختتام ایک مصنف ”سلطنت خدداد از محمود بنگلوری“کی تحریر پر ختم کرتا ہو ں۔

 

”جن لوگوں نے غدار ی کی ۔ وُہ آج اِس دُنیا میں نہیں رہے۔ بے شک خاندان ملک میں باقی ہیں۔ لیکن ان پر کیا الزام دھرا جاسکتا ہے۔ باپ کا الزام بیٹے پر یا بیٹے کا الزام باپ پر اور بھائی کا الزام بھائی پر آنہیں سکتا۔ ہر انسان جو کچھ کرتا ہے ۔ اُ س کے لیے وُہ خود کے آگے جوابدہ ہوتا ہے۔ دوسرے جوابدہ نہیں ہوسکتے۔ مذہب بھی یہی سکھلاتا ہے اور ضمیر بھی یہی کہتا ہے۔“

(فرخ نور)

نوٹ:ہر لفظ، جملہ اور نام میں نے خاصی احتیاط اور غورو فکر سے لکھا۔ مگر انسان خطاءکا پُتلا ہے۔ انجانے میں کوتاہی اور جانبداری واقع ہوسکتی ہے۔ اُس کے لیے معذرت۔ کہیں معلومات میں خامی ےا غلطی محسوس ہو تو ضرور آگاہ فرمائیے گا۔اس تحریر کو اپنے نام سے کوئی ظاہر نہ کرے ورنہ اگر کوئی کوتاہی واقع ہوئی تو وُہ فرد ذمہ دار ہوگا۔ کیونکہ یہاں ایک ایک لفظ معنی رکھتا ہے۔

 

Dream Fable

I saw myself in a wide green garden, more beautiful than I could begin to understand. In this garden was a young girl. I said to her, “How wonderful this place is!”

“Would you like to see a place even more wonderful than this?” she asked.

“Oh yes,” I answered. Then taking me by the hand, she led me on until we came to a magnificent palace, like nothing that was ever seen by human eyes. The young girl knocked on the door, and someone opened it. Immediately both of us were flooded with light.

Only Allah knows the inner meaning of the maidens we saw living there. Each one carried in her hand a serving-tray filled with light. The young girl asked the maidens where they were going, and they answered her, “We are looking for someone who was drowned in the sea, and so became a martyr. She never slept at night, not one wink! We are going to rub funeral spices on her body.”

“Then rub some on my friend here,” the young girl said.

“Once upon a time,” said the maidens, “part of this spice and the fragrance of it clung to her body — but then she shied away.”

Quickly the young girl let go of my hand, turned, and said to me:

“Your prayers are your light;
Your devotion is your strength;
Sleep is the enemy of both.
Your life is the only opportunity that life can give you.
If you ignore it, if you waste it,
You will only turn to dust.”

Then the young girl disappeared.

My Greatest Need is You

My Greatest Need is You

Your hope in my heart is the rarest treasure
Your Name on my tongue is the sweetest word
My choicest hours
Are the hours I spend with You —
O Allah, I can’t live in this world
Without remembering You–
How can I endure the next world
Without seeing Your face?
I am a stranger in Your country
And lonely among Your worshippers:
This is the substance of my complaint.

My Beloved

My peace, O my brothers and sisters, is my solitude,
And my Beloved is with me always,
For His love I can find no substitute,
And His love is the test for me among mortal beings,
Whenever His Beauty I may contemplate,
He is my “mihrab”, towards Him is my “qiblah”
If I die of love, before completing satisfaction,
Alas, for my anxiety in the world, alas for my distress,
O Healer (of souls) the heart feeds upon its desire,
The striving after union with Thee has healed my soul,
O my Joy and my Life abidingly,
You were the source of my life and from Thee also came my ecstasy.
I have separated myself from all created beings,
My hope is for union with Thee, for that is the goal of my desire.

معاف کردینا ہی مکارمِ اخلاق میں سے ہے

سعدی کہتے ہیں کہ ہارون الرشید کا لڑکا ابا کے سامنے شکایات لایا اور کہا کہ مجھے فلاں سپاہی کے لڑکے نے ماں کی گالی دی ہے۔ ہارون  نے ارکان دولت سے پوچھا کہ کیوں بھئی کیا سزا ہونی چاہیئے! کسی نے کہا کہ اسکو قتل کردینا چاہیئے۔ خلیفہ کی بیوی کو اور سلطنت اسلام کی خاتون اول کو اس نے گالی دی ہے۔ کسی نے کہا زبان کاٹ دینی چاہیئے۔ کسی نے کہا اسکا مال وجائیداد ضبط کرلینا چاہیئے۔ کسی نے کہا اسکو جلا وطن کردینا چاہیے یا کم سے کم جیل کی سزا۔

نے بیٹے کو کہا بیٹا تم معاف کردو تو بڑا بہتر ہے۔ گالی دینے والے نے اپنا منہ گندا کیا اس میں تمہارا کیا نقصان؟ تمہاری ماں کو گالی لگی نہیں۔ اگر کسی کی ماں ایسی نہیں ہے جیسے اس نے کہا تو اسکا منہ گندا ہوا‘ اسکی ماں کا کیا بگڑا۔ تو بہتر یہی ہے‘ مکارمِ اخلاق یہی ہے کہ تم اسکو معاف کردو اور اگر تم سے برداشت نہیں ہوا تو وجزاء سیئة سیئة بمثلھا برائی کا بدلہ اتنی برائی ہے۔ تم بھی اکسی ماں کو گالی دے دو لیکن شرط یہ ہے کہ جتنی اس نے دی تھی اتنی دو اس سے زیادہ نہیں۔ کیونکہ اگر تم اس سے زیادہ دوگے تو تم ظالم بن جاؤ گے اور تمہارا مخالف مظلوم بن جائیگا۔

“کامیاب عورت” کا مغربی اور اسلامی نقطہ نظر

گزشتہ صدی سے یہ موضوع مسلسل زیرِ بحث ہے کہ معاشرے میں ” کامیاب عورت“ کون ہوتی ہے؟ مغربی معاشرے میں اُس خاتون کو ”کامیاب عورت“ قرار دیا جاتا ہے جو کامیاب معاش رکھتی ہو، جو مالی طور پر خود مختار ہو اور جو گھر اور کارکی مالک ہو۔ لہٰذا ایسی خواتین اس معاشرے میں رول ماڈل (Role model) کے طور پر جانی جاتی ہیں جو مذکورہ بالا معیار پر پوری اترتی ہوں۔ چنانچہ سابقہ  برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی بیوی اور بظاہر چار بچوں کی ماں چیری بلیئر جو ایک کامیاب وکالت کا کیرئیر(Career) رکھتی ہے، اس کا ذکر اکثر رول ماڈل کے طور پر کیا جاتا رہا ہے۔

اسی طرح اُس معاشرے میں یہ رائے بھی عام ہے کہ باپ یا شوہر پر انحصار کرنا عورت کو معاشرے میں کم تر درجے کا مالک بنا دیتا ہے۔

 

ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ عورت جو ماں یا بیوی ہونے کے ساتھ کوئی بھی ذریعہ معاش نہیں رکھتی اس کی کوئی اہمیت نہیں یا یہ کہ وہ ایک ناکام عورت ہوتی ہے۔ اسی لیے اُس معاشرے میں جب کسی عورت سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ”آپ کا پیشہ کیا ہے؟“ یا ”آپ کیا کرتی ہیں؟“ تو وہ یہ جواب دیتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتیں ہیں کہ” میں صرف ماں ہوں“ یا ”میں ایک گھریلو خاتون ہوں“۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی معاشرے میں ایک پیشہ ور خاتون کو مالِ جنس (Commodity) کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اس کی اہمیت کا دارومدار اِس چیز پر ہے کہ وہ معیشت میں کتنا حصہ ڈال رہی ہے۔

 

اسی طرح مغربی معاشرے میں تذکیر و تانیث کا معاشرے میں کردار کے حوالے سے بہت بڑی تبدیلی آئی ہے کہ ایک خاندان میں عورت کو بھی کمانے کا اتنا ہی حق ہونا چاہیے جتنا کہ مرد کو ۔

چنانچہ 1996 میں کیمبرج یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق لوگوں کی اس بارے میں رائے کہ یہ صرف مرد کا کام ہے کہ وہ اپنے خاندان کی کفالت کرے، 1984میں 65فیصد تھی جو کہ 1994میں کم ہوکر 43 فیصد رہ گئی۔ اس وقت برطانیہ میں 45فیصد خواتین کام کرتی ہیں اور امریکہ میں 78.7فیصد خواتین کام کرتی ہیں۔

 

جبکہ مغربی حکومتیں کامیاب عورت کے اس معیار کی حوصلہ افزائی کرتی نظر آتی ہیں۔ لہٰذا ایسی عورتوں کی تعریف کی جاتی ہے جو کہ اپنی اس زندگی میں ایک کامیاب کیرئیر حاصل کرچکی ہوں۔ مزید برآں ایسی ماﺅں کے لیے معاشی فوائد کا اعلان بھی کرتیں ہیں جو کام کرنے والوں میں شامل ہونا چاہتی ہیں۔ چنانچہ برطانوی حکومت نے ایک پالیسی بعنوان ”قومی سٹریٹیجی برائے بچوں کی دیکھ بھال“ متعارف کرائی ہے کہ جس کے مطابق بچوں کی دیکھ بھال کے لیے بہت سی جگہیں فراہم کی جائیں گی تاکہ وہ عورتیں جو کام کرتی ہیں اپنے بچوں کو دیکھ بھال کے لیے ان جگہوں پر چھوڑ سکیں۔ اسی طرح انہیں مالی فوائد اور ٹیکس میں چھوٹ بھی دی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے بچوں کی دیکھ بھال پر اٹھنے والوں اخراجات کو برداشت کرسکیں۔ چنانچہ ”Full Time Mothers“ نامی تنظیم کا سربراہ جِل کِربی کہتا ہے کہ ” ایسی عورتوں کے لیے مالی فوائد ہیں جو کام کرتی ہیں لیکن گھر بیٹھی عورتوں کے لیے کوئی مالی فائدہ نہیں“

بدقسمتی سے وہ مسلم خواتین جو مغرب میں رہ رہی ہیں وہ اس سوچ سے بہت متاثر ہوئی ہیں کہ اپنی اس زندگی میں ایک کامیاب کیرئیر حاصل کرنا باقی تمام مقاصد سے بڑھ کر ہے۔

 

وہ بھی اب یہ یقین رکھتی ہیں کہ یہ کیرئیر ہی ہے جو کہ عورت کو معاشرے میں مقام اور عزت بخشتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شادی دیر سے کرتی ہیں یا وہ شادی کرتی ہی نہیں کیونکہ وہ شادی کو اپنے کیرئیر کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی ہیں۔ وہ بچوں کی پیدائش بھی دیر سے کرتی ہیں اور تھوڑے بچے پیدا کرتی ہیں یا بچے پیدا ہی نہیں کرتیں۔ اور وہ خواتین جو کوئی کام نہیں کرتیں وہ اپنے معاشرے کی طرف سے مستقل دباﺅ کا شکار رہتی ہیں کہ انہیں بھی کوئی کام کرنا چاہیے۔ چنانچہ وہاں پر موجود مسلمانوں کی بڑی تعداد اس سوچ سے متاثر ہوچکی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بہت سے والدین اپنی بیٹیوں کو کامیاب کیرئیر اختیار کرنے کی ترغیب دیتے ہیں، جبکہ ممکن ہے کہ وہ لڑکی جلدی شادی کرنے کے حق میں ہو اور ماں کا کردار نبھانے کو ترجیح دیتی ہو۔

 

باب : عورتوں کا کام کاج کے لئے باہر نکلنا درست ہے

حدیث نمبر : 5237
حدثنا فروة بن أبي المغراء، حدثنا علي بن مسهر، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة، قالت خرجت سودة بنت زمعة ليلا فرآها عمر فعرفها فقال إنك والله يا سودة ما تخفين علينا، فرجعت إلى النبي صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له، وهو في حجرتي يتعشى، وإن في يده لعرقا، فأنزل عليه فرفع عنه وهو يقول ‏”‏ قد أذن لكن أن تخرجن لحوائجكن ‏”‏‏.‏
ہم سے فروہ بن ابی المغراءنے بیان کیا ، کہا ہم سے علی بن مسہر نے بیان کیا ، ان سے ہشام بن عروہ نے ، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ام المؤمنین حضرت سودہ بنت زمعہ رات کے وقت باہر نکلیں تو حضرت عمر نے انہیں دیکھ لیا اور پہچان گئے ۔ پھر کہا اے سودہ ! اللہ کی قسم ! تم ہم سے چھپ نہیں سکتیں ۔ جب حضرت سودہ واپس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کاذکر کیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت میرے حجرے میں شام کا کھانا کھارہے تھے ۔ آپ کے ہاتھ میں گوشت کی ایک ہڈی تھی ۔ اس وقت آپ پر وحی نازل ہونی شروع ہوئی اور جب نزول وحی کا سلسلہ ختم ہو اتو آپ نے فرمایا کہ تمہیں اجازت دی گئی ہے کہ تم اپنی ضروریات کے لئے باہر نکل سکتی ہو ۔
تشریح : آج کے دورِ نازک میں ضروریات زندگی اور معاشی جد وجہد اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اکثر مواقع پر عورتوں کو بھی گھر سے باہر نکلنا ضروری ہو جاتا ہے۔ اسی لئے اسلام نے اس بارے میں تنگی نہیں رکھی ہے، ہاں یہ ضروری ہے کہ شرعی حدود میں پردہ کرکے عورتیں باہر نکلیں

بد نظری : زہر آلود تیر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مذہبِ اسلام نے کسی غیر محرم کو دیکھنے سے روکا ہے اور نگاہیں نیچی رکھنے کی ہدایت کی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
’’ قل للمؤمنین یغضوا من ابصارهم و یحفظوا فروجهم‘‘
( سورۃ نور۔30)
مسلمان مردوں سے کہدیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔

آیت مبارکہ میں حفاظت فروج سے پہلے نظروں کی حفاظت کا حکم فرما یا ہے، کیونکہ نظروں کی بے احتیاطی ہی شرمگاہوں کی حفاظت میں غفلت کا سبب بنتی ہے۔

بد نظری کے معاملے میں جو حال مردوں کا ہے کم و بیش وہی حال عورتوں کا بھی ہے ،چونکہ مرد وعورت کا خمیرایک ہی ہے اور عورتیں عموماً جذباتی و نرم طبیعت ہوتی ہیں ،جلد متاثر ہوجاتی ہیں ان کی آنکھیں میلی ہو جائیں ،تو زیادہ فتنے جگاتی ہیں ۔اس لیے ان کو بھی واضح اور صاف الفاظ میں نگاہیں نیچی رکھنے کی نصیحت کی گئی ہے۔

’’وقل للمؤمنات یغضضن من ابصارهنّ و یحفظن فروجهن ‘‘
۔ (نور۔31)
مسلمان عورتوں سے کہدیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔

اوّل الذکر آیت میں مرد وعورت دونوں نگاہیں نیچی رکھنے اور شرم گاہوں کی حفاظت کرنے کے حکم میں شامل تھے ،جس میں عام مومنین کو خطاب ہے،اور مومنین میں بالعموم عورتیں بھی شامل ہوتی ہیں۔نگاہیں نیچی رکھنے اور شرم گاہوں کی حفاظت کرنے کے حکم کی اہمیت کے پیش نظر ان کو بطور خاص دوبارہ نگاہیں نیچی رکھنے کو کہا گیا ہے، اسی سے مستدل یہ مسئلہ بھی ہے کہ جس طرح

مردوں کے لیے عورتوں کا دیکھنا منع ہے، اسی طرح عورتوں کے لیے مردوں کا دیکھنا مطلقاً ممنوع ہے۔

نگاہیں نیچی رکھنے کے فوائد بے شمار ہیں ،نگاہیں نیچی رکھنے میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کی اطاعت ہے ،جس سے اس زہر آلود تیر کا اثر دل تک نہیں پہونچتا ۔اللہ تعالیٰ سے انسیت و محبت بڑھتی ہے، دل کو قوت و فرحت حاصل ہو تی ہے ،دل کو نور حاصل ہو تا ہے مومن کی عقل و فراست بڑھتی ہے۔ دل کو ثبات و شجاعت حاصل ہو تی ہے ۔دل تک شیطان کے پہونچنے کا راستہ بند ہو جا تا ہے۔ دل مطمئن ہو کربہتر اور کا رآمد باتیں سوچتاہے۔

نظر اور دل کا بڑا قریبی تعلق ہے ،اور دونوں کے درمیان کا راستہ بہت مختصر ہے ۔دل کی اچھائی یا برائی کا دارو مدار نظر کی اچھائی و برائی پر ہے ۔جب نظر خراب ہو جاتی ہے، تو دل خراب
ہو جاتا ہے اس میں نجاستیں اور گندگیاں جمع ہو جاتی ہیں،اور اللہ کی معرفت اور محبت کے لیے اس میں گنجائش باقی نہیں رہتی ۔خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اپنی نگاہیں نیچی رکھتے ہیں اور وہ بڑی بڑی مصیبتو ں اور آفتوں سے بچے رہتے ہیں۔مومنوں کو بد نظری سے بچنا چاہئے اور نگاہیں نیچی رکھنی چاہئے تاکہ مرد و عورت عزت کے ساتھ زندگی گزاریں اور کوئی مصیبت ان پر نہ آئے، جس سے زندگی داؤ پر لگ جائے، اور ان کی اشرفیت جاتی رہے۔

بد نظری کرنے سے بہت سی برائیاں سر اٹھا تی ہیں، ابتدا میں آدمی اس کو ہلکی چیز سمجھ کر لطف اندوز ہو تا ہے، اور آگے چل کر عظیم گناہ کا مرتکب و ذلیل و رسواہو جاتا ہے ۔جس طرح چنگاری سے آگ کے شعلے بھڑکتے ہیں، اسی طرح بد نظری سے بڑی بڑی برائیاں جنم لیتی ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ العینان تزنیان و زناهما النظر‘‘ آنکھوں کا دیکھنا زنا ہے۔
اس سے زمین میں فساد پھیلتا ہے، زنا کے لیے راہ ہموار ہو تی ہے، اس سے گھر کی برکت ختم ہو تی ہے۔ بد نظری کرنے والے کو حسن عمل کی توفیق نہیں ہو تی۔ قوت حافظہ کمزور ہو جاتی ہے ۔یہ ذلت و رسوائی کا سبب بنتی ہے ،اس سے بے حیائی پھیلتی ہے ۔بد نظری سے انسان کے اندر خیالی محبوب کا تصور پیدا ہو جاتا ہے ،وہ خام آرزؤں اور تمناؤں میں الجھا رہتا ہے، اس کا دماغ متفرق چیزوں میں بٹ جاتا ہے، جس سے وہ حق اور ناحق کی تمیز نہیں کر پاتا۔اس سے دو دلوں میں شہوتوں کی آگ بھڑکتی ہے اور خوابیدہ جنسی جذبات میں جنبش ہوتی ہے۔

دور سے ہر چیز بھلی لگتی ہے، اس لیے انسان کا دل دیکھنے کو چاہتا ہے، اس کو پیاس لگی رہتی ہے جو کبھی نہیں بجھتی۔یہ گناہ اصل جوانی میں غلبۂ شہوت کی وجہ سے کیا جاتا ہے، پھر ایسا روگ لگ جاتا ہے کہ لب گور تک نہیں جاتا۔اللہ تعالیٰ نے ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت بنایا ہے کسے کسے دیکھنے کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ایک کو دیکھا دوسرے کو دیکھنے کی ہوس ہے، اسی دریا میں ساری عمر بہتا رہے گا، تب بھی کنارے پر نہیں پہونچے گا ،کیونکہ یہ دریا نا پید کنار ہے۔
بد نظری زنا کی سیڑھی ہے۔مثل مشہور ہے کہ دنیا کا سب سے لمبا سفر ایک قدم اٹھا نے سے شروع ہو جاتا ہے، اسی طرح بد نظری کر نے سے زنا کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ مومن کو چاہئے کہ پہلی سیڑھی ہی چڑھنے سے پرہیز کرے۔

بد نظری ایک تیر ہے، جو دلوں میں زہر ڈالتا ہے یہ تیر جب پیوست ہو جاتا ہے تو سوزش قلب بڑھنی شروع ہو جاتی ہے ۔جتنی بد نظری زیادہ کی جائے ،اتنا ہی زخم گہرا ہو تا ہے ۔ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نگاہ ڈالنے والا پہلے قتل ہو تا ہے، وجہ یہ ہے کہ نگاہ ڈالنے والا دوسری نگاہ کو اپنے زخم کا مداوا سمجھتا ہے، حالانکہ زخم اور گہرا ہو تا ہے۔ (بحوالہ:لکافی۔477)

لوگ کانٹوں سے بچ کے چلتے ہیں ہم نے پھولوں سے زخم کھائے ہیں
جب انکھیاں لڑتی ہیں اور نین سے نین ملتے ہیں تو چھپی آشنائی شروع ہو جاتی ہے اور سلام و پیام ،کلام و ملاقات کے دروازے وا ہو جاتے ہیں، اس کا سلسلہ جتنا دراز ہوتا جاتا ہے، اتنی ہی بیقراری بڑھتی جاتی ہے، اور اشاروں اشاروں میں زندگی بھر ایک ساتھ رہنے کے عہد و پیمان ہو جاتے ہیں، اور ایک طرح کا ہو کر ساتھ رہنے کی قسمیں کھائی جاتی ہیں اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ساری سوسائٹی سو گوار ہو جاتی ہے۔

بدنظری کر نے والے لوگ چو راہوں ،دوکانون میں بیٹھ کر آنے جانے والی عورتوں کو گھور گھور کردیکھتے ہیں اور چیتے کی طرح پھاڑ کھانے والی نظریں ان پر ڈالتے ہیں، اوربھوکے بھیڑیے کے مثل حلق میں اتار نے کی کوشش کر تے ہیں، اور نکلنے والی عورتیں ان فریب خوردہ لوگوں کی کٹیلی و نشیلی اور ھوس ناک نگاہوں کا شکار بنتی ہیں ۔

مغربی تہذیب کی لپیٹ میں آ کر بن ٹھن کر بے پردہ ہو کر نکلنے والی خواتین بھی بد نظری کے مواقع فراہم کر تی ہیں اور پازیب کے گھنگھر و بجاتے ہوئے اپنے گزرنے کا احساس دلاتی ہیں، اور بازار میں اپنے حسن کے جلوے بکھیرتی ہیں ۔خواتین جو گھروں کی زینت ہیں مارکیٹ کی زینت بنتی جارہی ہیں اور شیطان اپنی تمام تر فتنہ سامانیوں کے ساتھ عورت کے ناز و نکھرے اور چلنے کے انداز و ادا کوسنوار کرپیش کرتا ہے، اور عاشقانِ حسن کو گناہ بے لذت میں مبتلا کر دیتا ہے، اور منچلے لونڈے لفنگے لڑکے رال ٹیکائے اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں اور اس کو اپنے مطابق دیکھ کر اپنی ابھرتی خواہشات نفسانی اوردہکتی جذبات کی بھٹی کو سرد کر تے ہیں۔

بد نظری کر نے والے گھروں میں جھانک کر اور کھڑکیوں کے اندر رہنے والی عورتوں پر نظر کا جادو چلاتے ہیں اور وہ کسی ضرورت کے تحت کسی گھر میں چلے جاتے ہیں، تو ان کی نظر گھومتی رہتی ہے ،جب تک رہیں اپنے سامان کی تلاش جاری رکھتے ہیں اور کنکھیوں سے بار بار مخالف جنس کو دیکھتے ہیں، وہاں بھی غیرت نہیں آتی۔ کیونکہ یہ دھندا ہی ایسا ہے ،جس کا سابقہ پڑ گیا، پیچھا نہیں چھوڑتا۔ جوانی تو جوانی پیرانہ سالی میں بھی اسی سے منسلک رہتے ہیں اور آخر میں گھاٹا بھی گھاٹا ہاتھ آتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’یعلم خائنة الاعین ووماتخفی الصدور ‘‘
(المومن ۔ 17)
اللہ تعالیٰ جانتا ہے آنکھوں کی خیانت کو اور وہ کچھ جو سینوں میں پوشیدہ ہے ۔

خیانت نظر کی تشریح ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ کیا کہ :آدمی کسی کے گھر میں جائے وہاں کسی خوبصورت عورت ہو جسے نظر بچاکر دیکھنے کی کوشش کرے،اور جب لوگوں کو اپنی طرف
متوجہ پائے تو نظر نیچی کرلے،لیکن اللہ نے اس کے دل کا حال جان لیا ۔ ( الجواب الکافی)

پہلی اچانک نظر معاف ہے ۔نبی ﷺ سے عبد اللہ بن جریر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: اگر اچانک نظر پڑ جائے تو ؟آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’صرف نظرک‘‘ (مسلم)۔ تو اپنی نظر پھیرلے۔ اگر پہلی نظر ارادۃ ڈالی جائے، تو وہ بھی حرام ہے اور پہلی نظر معاف ہو نے کا یہ مطلب بھی نہیں کہ پہلی نظر ہی اتنی بھر پور ڈالی جائے کہ دوبارہ دیکھنے کی ضرورت ہی نہ رہے ۔صرف اتنی بات ہے کہ اگر اچانک نظر پڑجائے تو فوراً ہٹا لینا چاہئے ۔

انسانی آنکھیں جب بے لگام ہو تی ہیں، تو اکثر برائی و لڑائی کی بنیادبن جاتی ہیں اور انسان کے اندر گناہ کا تخم پڑجاتا ہے ۔ جو موقع ملنے پر بہار دکھاتا ہے ۔قابیل نے ہابیل کی بیوی کے جمال پر نظر ڈالی تو دل و دماغ پر ایسا بھوت سوار ہوا کہ اپنے بھائی کا قتل کر ڈالا۔اور دنیا میں پہلے قتل کا مرتکب ہوا۔عزیز مصر کی بیوی نے حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن کو دیکھا تو جذبات کے ہاتھوں ایسی بے قابو ہوئی کہ گناہ کی دعوت دے ڈالی۔

بد نظری کی ایک قسم وہ برہنہ تصاویر ہیں جو اخباروں اور کتابوں کی زینت بنتی ہیں ۔حتی کہ مضامین پر مشتمل رسالوں کے سر ورق پر چھپتی ہیں اورفلموں، ڈراموں اور ماڈلنگ کر نے والی عورتوں کی تصاویر ہیں جو اکثر جگہ دیواروں پر چسپاں رہتی ہیں۔ اور آج کل آسانی یہ ہو گئی ہے کہ ملٹی میڈیا موبائل سیٹ کے فنکشن میں یہ تصویریں قید رہتی ہیں اور انہی سیکڑوں برہنہ و نیم برہنہ تصاویر کو بدل بدل کر موبائل اسکرین میں سیٹ کیا جاتا ہے اور خلوت میں تلذد کی نگاہ مکمل توجہ کے ساتھ انکے انگ انگ کا معائنہ کرتی ہے ۔ ٹی،وی اناء و نسر کو خبروں کے بہانے دیکھنا ،گرل فرینڈوبوائے فرینڈ کی تصویر تنہائی میں للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا ، انٹر نیٹ پر پیشہ ور لڑکیوں کی تصاویر دیکھنا یا فحش ویڈیو سی ڈیز دیکھنا، ان سب کا دیکھنا زندہ عورت کو دیکھنے سے زیادہ نقصان دہ ہے ۔راہ چلتے غیر محرم کے خدو خال کو اتنی باریک بینی سے نہیں دیکھا جا سکتا ہے، جتنا کہ تصاویر کے ذریعہ دیکھنا ممکن ہے ،ان سے زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نگاہیں نیچی رکھنے کی توفیق فرمائے ۔آمین۔